ارتسام اور اردو منظر نامہ

کالم ندیم ملک

شاعری دلی جذبات و غنائی اظہار کا نام ہے یہ تخلیقی اور نثری تعمیری اظہار ہے شاعری جذبے کے طوفان کو الفاظ میں اسیر کرنے کا نام ہے جذبات و خیالات کو الفاظ میں اسیر کرنا آسان نہیں مگر شاعر جو الفاظ کا تخلیقی استعمال جانتا ہے وہ اپنی تخلیقی قوت سے انہونی کو ہونی کر دیتا ہے شاعری تاثرات کی فطری زبان اور تخیل کا شہکار ہوتی ہے یہ الفاظ کے ترنم ان کے مفہوم معنی یا مطلب اور کتاباتی پہلو کا نام ہے “ورڈز ورتھ “کے الفاظ میں شاعری جذبات کا بے ساختہ سیلاب کا نام ہے یہ حسنِ تخیل اور حسنِ بیان کا مجموعہ ہے دراصل شاعری اتنی وسعت کی حاملہ ہے کہ چند الفاظ میں اسے محصور نہیں کیا جا سکتا شاعری کی روح نہ تو بلند یا نزاکتِ خیال میں ہے اور نہ صرف الفاظ کے ماہرانہ استعمال میں بلکہ دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے شاعری انسانی فطرت کا آئنہ ہے جس میں اس کے حرکات و سکنات طور طریقے وضع قطع رسم و رواج کا جلوہ نظر آتا ہے جس میں اس کی زندگی کے تاریک پہلو اور روشن پہلو دونوں ابھر کر سامنے آتے ہیں شاعری انسان کی اسی فطری خواہش کا نتیجہ ہے کہ جن چیزوں کو دیکھے یا سُنے اُس کو اپنے طور پر پیش کرے یا کو خیالات اور جذبات اس کے دل میں موجزن ہوں اُن کو ظاہر کرے
ارتسام عمران حیدر مدحر کا دوسرا شعری پڑاؤ ہے اس سے پہلے ان کا پہلا شعری مجموعہ “تمھیں یاد کرتی ہے کربلا” حمد،نعت،سلام،منقبت پر مشتمل ہے کے نام شائع ہوکر شائقینِ شعر کی پزیرائی حاصل کر چکا ہے برادرم عمران حیدر مدحر سے تعلق ان کے پہلے شعری سفر سے بھی پہلے کا ہے انھوں نے جس طرح فنِ شاعری سیکھا اور ان سے جس طرح ان کے بعد کے شعراء نے استفادہ کیا اس پر پھر کبھی بات ہوگی ان کے استاد ”اے غفار پاشا“ سے بہت اچھا دوستانہ تھا مرحوم سے بے تکلفی کا یہ عالم تھا کہ جب بھی ان سے بات ہوتی وہ سخت سے سخت بات کا ردِ عمل بھی ہنسی کی صورت میں دیتے یوں کہیے کہ جو بات بھی ناگوار گزرتی اس پر اس طرزِ تخاطب سے جواب دیتے کہ عقل حیران رہ جاتی اے غفار پاشا مرحوم کا شمار بورے والا کی ان ادبی شخصیات میں ہوتا ہے جن کے ہاتھ پر لاتعداد شعراء نے تلمذ کیا اور انھوں نے نئے لکھنے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ انھیں شاعری کے رموز و اوقاف یعنی علمِ عروض سے بھی آشنا کروایا عمران حیدر بھی ان نئے لکھنے والوں میں سے ایک ہیں عمران حیدر نے دن رات علم حاصل کرنے میں صَرف کیے پوسٹ آفس کے محکمے میں ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں جو وقت ملتا ہے انھیں اپنی صلاحیت کو بروئے کار لائے ہوئے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں جو خدا نے انھیں ودیعت کی ہے اپنا وقت اسی ایکٹیویٹی میں گزارتے ہیں ارتسام میں فلیپ برادرم رفیق سندیلوی نے لکھا ہے جب کہ ان کی شاعری کے بارے مضامین معروف شاعر کالم نگار سعود عثمانی ،رضی الدین رضی ،پروفیسر غزالہ انجم، سید تحسین گیلانی نے لکھے ہیں
عمران حیدر نوجوان شاعر ہیں لیکن ان کی غزل دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ کسی نوجوان شاعر کی غزل ہے یہ ان کی ادب اور شعری ریاضت کا منہ بولتا ثبوت ہے چند عرصے میں جس محنت اور ریاضت سے انھوں نے اپنا جداگانہ اسلوب بنایا جسے بناتے شعراء کو سالوں سال لگ جاتے ہیں ان کی غزل جدید غزل کے تمام تر تقاضوں پر پورا اترتی ہے اصنافِ ادب میں سب سے مقبول صنف غزل ہے جس پر تمام شعراء نے اپنی بساط کے مطابق طبع آزمائی کی خواہ وہ غالب و میر ہوں یا اقبال و فراز آج بھی غزل اسی طرح مقبول ہے جس طرح اٹھارویں صدی میں اس کا طوطی بولتا تھا بقول سعود عثمانی اردو غزل بھی کیا جادوئی صنف ہے جو نہ علاقہ دیکھتی ہے نہ مرد و عورت، نہ موسم ، نہ مادری زبان،نہ پیشہ ،سحر کرتی ہے اور جادو ایسا کہ جو سر چڑھ کر بولے سمندر، پہاڑ،دریا،صحرا،میدان،جنگل قوس و قزح ہر جگہ یہ اپنا جادو جگاتی ہے دنیائے ادب میں ہر کسی کو اسی صنف نے پہچان دی اور متعارف کروایا آج بھی جو شعراء مقبول ہیں وہ اسی صنف کی بدولت ہیں
آخر میں ارتسام سے چند اشعار

جفا کی گرد جمی ہے شفاف ذہنوں پر
مجھے یہ مُلک سنورتا نظر نہیں آتا
دھواں اٹھا ہے وہ خودکش بموں کے شعلوں سے
ہلالِ عید نکلتا نظر نہیں آتا
۔۔۔۔۔
شہر کے شہر یہ ویران ہوئے جاتے ہیں
چار سُو موت کے اعلان ہوئے جاتے ہیں
اب تو رحمت کی ہمیں بھیک عطا کر مولا
لوگ اپنوں سے بھی انجان ہوئے جاتے ہیں
۔۔۔
پھر کسی روز یہ سورج نے کہا تھا مجھ سے
چاند کے گھاؤ کا الزام بھی سر آئے گا
ضبط کی آخری ہچکی کو ذرا نے دو
خون آنکھوں کے جزیروں سے گزر آئے گا
۔۔۔۔
تمھاری یاد اگر ساتھ چھوڑ جائے گی
شبِ فراق کسے غم سنا کے روؤں گا
وفا کا درس دیا تشنگی نے صحرا میں
لبِ فرات میں پیاسا ہی جا کے روؤں گا
۔۔۔۔۔
خون روئے تو پھر سخن آیا
کب ہمیں شاعری کا فن آیا
جھک کے جرأت سلام کرنے لگی
جب وہ تیروں پہ گل بدن آیا
لب پہ فوراً درود جاری ہوا
جب کبھی ذکرِ پنج تن آیا
۔۔۔
گونگی بہری سوچیں ہیں
عشق میں اندھی سوچیں ہیں
گھر کے خالی آنگن میں
ہر سو بکھری سوچیں ہیں
کیسے کیسے سپنے ہیں
کیسی کیسی سوچیں ہیں
برارم عمران حیدر مدحر کی شاعری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے امید ہے شائقینِ شعر ان کا دوسرا شعری مجموعہ پہلے کی طرح ہاتھوں ہاتھ لیں گے ان کے اس شعری پراؤ ارتسام میں بڑی بحور میں بہت شاندار غزلیات موجود ہیں عموماً شعراء بڑی بحور میں شعر کہنے سے گریز کرتے ہیں جب کہ عمران حیدر مدحر بڑی بحور میں بڑی آسانی سے عمدہ اشعار نکالتے ہیں مجھے

Comments (0)
Add Comment