۔۔۔۔موریطانیہ کشتی حادثہ ۔۔۔

تنویر اقبال لاہور

ایک اندازے کے مطابق ھر سال غربت، بے روزگار ی کے ھاتھوں مجبور تقریباً 20 ھزار لوگ غیر قانونی طور پر پاکستان سے یورپ اور دوسرے ملکوں میں جاتے ھیں ۔ عام روٹ جو اس مضموم دھندے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ بلوچستان سے ایران سے ترکی اور پھر ترکی سے بذریعہ سمندری راستہ یونان یا پھر اٹلی کے لیے ڈنکی لگائی جاتی ہے ۔ ھر سال روشن مستقبل کا خواب آ نکھوں میں سجائے کتنے ھی لوگ موت کی وادی میں اتر جاتے ھیں ۔
حال ہی میں مغربی افریقہ کے ملک ماریطانیہ سے اسپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی ایک افسوسناک حادثے کا شکار ہو گئی ۔جس میں چوالیس پاکستانیوں سمیت پچاس افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ اس سے پہلے بھی گزشتہ مہینے بھی تقریباً 40 پاکستانی یونان میں مختلف کشتیوں کو پیش آ ئے حادثات میں جاں بحق ھو گئے تھے ۔ 2023 میں بھی یونان میں ھی کشتی ڈوبنے کا ایک بہت بڑا حادثہ پیش آیا جس میں 300 کے قریب لوگ اپنی زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھے ۔
دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی انسانی اسمگلنگ کے مسئلے کا سامنا ہے ۔ عالمی تنظیم آ ئی۔او۔ایم کی ایک رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستانی بلکہ افغانستان ،بنگلہ دیش اور خطے کے کئی دوسرے ممالک کے افراد بھی موت کے سوداگروں کے ھتھے چڑھ کر اپنی جانوں سے ھاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
تارکین وطن میں سب سے بڑی تعداد پاکستانی نوجوانوں کی ھوتی ھے ۔ اس کے علاوہ ھیومین ٹریفکنگ کا نشانہ بننے والے پاکستانی باشندوں میں بڑی تعداد بچیوں اور خواتین کی ھوتی ھے ۔
اربوں ڈالر سالانہ کے اس غیر قانونی دھندے میں انسانی سمگلروں کے ساتھ ساتھ انکے سرکاری سہولت کار بھی موجود ہیں جن کی مدد کے بغیر یہ مکروہ فعل سر انجام نہیں دیا جاسکتا ۔
یہ بات نہیں ہے کہ وطن عزیز میں انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے قانون موجود نہیں ہیں ۔ بلکہ اصل بات ان قوانین پر عملدرآمد اور clearty کی ھے۔
پاکستان میں تعزیرات پاکستان میں حبسِ بے جا میں رکھ کر بیگار لینا ، جنسی مقاصد کے لیے بچوں کی تجارت اور آ زاد شہری کو غلام بنانے کی سخت ممانعت ہے ۔ اس کے مرتکب افراد کے لیے سخت سزائیں متعین ھیں ۔ اس کے علاوہ Bound Labor System Abolition Act , Prevention and Control of Human Trafficking Ordinance اور Emigration Act موجود ہیں
انسانی اسمگلنگ پر قابو پانے میں ناکامی کی اصل وجہ ان قوانین پر عملدرآمد نہ ھونا ھے۔
ایک دوسرا اہم پہلو اس مسئلے کا یہ بھی ہے کہ آ خروہ کیا وجہ ھے لوگ لاکھوں روپے خرچ کر کے بھی زندگی اور موت کا یہ کھیل کھیلنے پر مجبور ھیں ۔
اس کی ایک سیدھی سی وجہ تو بہتر مستقبل کی تلاش ھے ۔
دوسری وجہ شاید Rule of Law ھے وھاں پر ھر فرد کو اسکی محنت کا مکمل معاوضہ ملتا ہے ۔ ترقی کے یکساں مواقع موجود ہیں ۔ کام کرنے والے کو وھاں کمی کمین نہیں سمجھا جاتا ۔۔
حکومت پاکستان کو یقیناً معاملے کی سنگینی کا احساس ھے ۔ وزیراعظم پاکستان اور صدر پاکستان نے انسانی سمگلروں سے آ ہنی ھاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔ لاکھوں روپے لے کر لوگوں کے جوان بیٹوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہ ھیں ۔ اس قبیح دھندے کا خاتمہ ناگزیر ہے ۔ اس ٹھوس اقدامات وقت کی اہم ضرورت ھیں جن سے نہ صرف انسانی سمگلروں بلکہ انکے سہولت کاروں کو بھی نشان عبرت بنایا جاسکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں بھی شعور اور آگاہی کے لئے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ وہ کسی بھی ملک کی زبان سیکھ کر اور کوئی بھی ایک ھنر سیکھ کر قانونی طریقے سے کم پیسوں میں عزت کے ساتھ بیرون ملک جاسکتے ھیں ۔ جس سے نہ صرف انکے لئے آ سانیاں ھوں گی بلکہ انکے خاندان بھی پریشانیوں سے محفوظ رہیں گے۔
قانونی طریقے سے ھنر کے ساتھ بیرون ملک جاکر نوجوان اپنے ملک کی عزت میں بھی اضافے کا سبب بنے گے۔۔
حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ ملک کے اندر ھی نوجوانوں کے لیے پرکشش پروگرام شروع کرے تاکہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے رجحان کو ختم کیا جا سکے ۔ Rule of Law اور قانون پر عمل درآمد بھی اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ناگزیر ہے
درست سمت میں اٹھائے گئے قدم یقیناً مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔۔

Comments (0)
Add Comment