معیشت رفتہ رفتہ استحکام کی جانب گامزن ہے۔مالیاتی نظام کو درست ٹریک پر لانے کی خاطر سیاسی استحکام لانا بھی ناگزیر ہوتا ہے اسی لئے حکومت نے تمام تر خرابیوں کے باوجود سیاسی ڈائیلاگ کا آپشن ہر موڑ پر “اوپن”رکھنے کا اہتمام کیا ۔پاکستان میں سیاست میں ضد اور ہٹ دھرمی کو رواج دینے والوں نے سال بھر “مذاکرات”کے دروازے بند رکھنے کا بیانیہ ہی اپنائے رکھا ،اپوزیشن کے لئے حکومت کا ہاتھ سے نکل جانا اس قدر درد ناک رہا کہ نئی حکومت کو گرانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا ،”سیاسی دشمنی” کو “ملکی دشمنی” کا ملبوس پہنانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا ۔اقتدار سے الگ ہونے پر دل برداشتہ کھلاڑی مخالف سیاسی میدان میں اترنے کی بجائے ریاست سے ہی ٹکرا گئے اور اسکے نتیجے میں 9مئی 2023برپا ہوگیا ۔خدا کا شکر ہے کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے کردار بے نقاب ہوگئے ،قوم نے حب الوطنی کے دعویداروں کی حقیقت بھی دیکھ لی ،ان سب کے باوجودشہباز حکومت نے صبر وتحمل اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے “جرم کو سیاست “سے الگ رکھنے کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا ۔مجرموں کیساتھ قانونی طریقے سے نمٹنے کا اہتمام کیا گیا اور سیاسی ڈائیلاگ کے دروازے کھلے رکھے گئے ۔ملکی مفاد کو ہر لحاظ سے مقدم رکھتے ہوئے معاشی ترقی کے سفر کو جاری رکھا گیا ہے چونکہ معاشی اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اس لئے حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ سنجیدگی سے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ،اسی دوران کچھ ریاست سے ٹکرانے کی خواہش رکھنے والوں نے مذاکرات کے عمل کو سبوتاژکرنے کی خاطر پروپگنڈا شروع کردیا،دوسرا عدالت سے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف 190ملین پائونڈ کیس میں سزا سنائے جانے پر بھی اسی طرح کے ردعمل نے معاملہ سامنے آ رہا ہے ،اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو مشکوک بنانے کی خاطر دہرا معیار اپنانے کی روش نے بھی نیا موڑ لے لیا ہے ،حکومت کے دانشوروں نے اسے پی ٹی آئی کی” دو عملی “قرار دیا ہے ۔سیاسی بالغ نظری کا تقاضا تو یہی ہے کہ اگر ملکی مفاد میں سیاست دانوں کو ملکر ملکی مسائل پر قابو پانے کاموقع مل رہا ہے تو اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی خوشحالی کے راستے کھولنے چاہئیں ۔مذاکرات کے عمل کو مشکوک بنانے سے گریز کرنا چاہئے ،ڈائیلاگ کا معروف مروجہ طریقہ کار موجود ہے اس سے انحراف کئی طرح کے مسائل کا باعث بنے گا ،بیک ڈور پراسیس کیساتھ اگر فرنٹ ڈور پراسیس بھی چلے گا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پھر کچھ نہیں چلے گا۔مفاہمت کے معنی ومفہوم ہی پھر “سازشی تھیوری “میں بدل جائیں گے ۔ان حالات میں معاملات پھر جوں کے توں رہیں گے ، پی ٹی آئی نے طویل مزاحمت سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا بالاآخر مفاہمت کی میز پر ہی آنا پڑا ہے اسکے باوجود اب پھر مفاہمت کے اس حالیہ عمل کو دہرے بیانیہ سے “مزاحمت “کا عمل بناکر سوائے مزید خرابی کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ۔موجودہ نازک موڑ پر حقیقی سیاسی استحکام ہی ہماری ضرورت ہے۔اس لئے سیاستدانوں کو چاہئیے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں !۔وسیع تر قومی مفاد میں ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے ملکر چلنے کا جذبہ لیکر آگے بڑھیں ،یہی ملکی معیشت کو استحکام دیکر ملک کو خوشحالی کی منزل پر لانے کا حقیقی راستہ ہے ۔