*کائنات کے راز ۔ قسط نمبر 3*

تحریر محمد جمیل شاہین راجپوت کالم نگار و تجزیہ نگار

 

حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کا سفر اور جدید سائنس

حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید کی سورہ کہف (آیات 83-98) میں کیا گیا ہے، جہاں ان کے تین اہم اور حیرت انگیز سفروں کا بیان موجود ہے۔ قرآن میں ان کے ان سفروں کا ذکر نہایت اختصار سے کیا گیا ہے، لیکن جدید سائنسی دریافتوں اور قرآنی الفاظ کے گہرے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ سفر نہ صرف زمین تک محدود تھے بلکہ کائنات کی وسعتوں اور رازوں تک بھی محیط تھے۔
یہ سفر کائنات کے ایسے رازوں کو بیان کرتے ہیں جنہیں آج کی سائنس بلیک ہولز، نیبولا، اور کائناتی پردے کے نام سے جانتی ہے۔ ان سفروں کا تعلق ستاروں کے جنم لینے، مرنے، اور کائناتی نظام کے عظیم منصوبے سے ہو سکتا ہے۔

حضرت ذوالقرنین کی شخصیت اور مشن

حضرت ذوالقرنین اللہ کے ایک برگزیدہ بندے تھے، جنہیں علم، حکمت، اور حکمرانی کی بے مثال طاقت عطا کی گئی تھی۔ قرآن کہتا ہے:

> “ہم نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا اور ہر چیز کا سامان مہیا کیا۔” (سورہ کہف: 84)

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صرف زمین پر ہی نہیں بلکہ کائنات میں بھی قدرتی وسائل اور خفیہ راستوں تک رسائی عطا کی۔ ان کا مشن اللہ کے احکامات کے مطابق عدل و انصاف قائم کرنا اور کائنات کے اسرار کو سمجھنا تھا۔

پہلا سفر: مغرب کی سمت (بلیک ہول اور مرتے ہوئے ستارے)

حضرت ذوالقرنین کا پہلا سفر مغرب کی طرف تھا، جہاں وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جسے قرآن میں “دلدلی پانی کے چشمے” کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

> “یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچے، تو انہوں نے اسے ایک کالیچ پانی کے چشمے میں ڈوبتے پایا۔” (سورہ کہف: 86)

سائنسی تشریح:

یہ “دلدلی پانی” کسی زمینی جگہ کا ذکر نہیں بلکہ ایک ایسا مقام ہو سکتا ہے جہاں ستارے اپنی زندگی مکمل کر کے ختم ہو رہے ہوں۔ دلدلی پانی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کائنات میں کوئی مائع چیز موجود ہے۔

1. مرتے ستارے اور بلیک ہولز:
ستارے جب اپنی زندگی کے اختتام پر پہنچتے ہیں تو وہ سپرنووا کے ذریعے ختم ہو جاتے ہیں، اور ان کے بعد بلیک ہول یا نیوٹران ستارہ بن سکتا ہے۔

بلیک ہولز کے ارد گرد جمع ہونے والی گیس اور مائع مادہ قرآن کے بیان کردہ “دلدلی پانی” کے تصور سے مشابہت رکھتا ہے۔

سورج کا “غروب ہونا” علامتی طور پر ستارے کے ختم ہونے یا اس کے بلیک ہول میں تبدیل ہونے کی نشاندہی کر سکتا ہے۔

ذوالقرنین کی ملاقات:

اس مقام پر حضرت ذوالقرنین نے ایک قوم کو پایا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اختیار دیا کہ وہ ان کے ساتھ سختی کریں یا نرمی کا برتاؤ کریں۔

ذوالقرنین نے عدل سے کام لیا اور اعلان کیا کہ جو لوگ نافرمانی کریں گے، انہیں سزا دی جائے گی۔

جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے، انہیں انعام دیا جائے گا۔
یہ واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کا عدل کائنات کے کسی بھی کونے میں قائم کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ ستاروں کے مرتے ہوئے خطے ہی کیوں نہ ہوں۔

دوسرا سفر: مشرق کی سمت (نیبولا اور نئے ستاروں کی پیدائش)

دوسرا سفر مشرق کی سمت تھا، جہاں حضرت ذوالقرنین ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں سورج کے سامنے کوئی پردہ نہیں تھا۔

> “یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچے، تو انہوں نے ایک ایسی قوم کو پایا جس کے لیے ہم نے سورج کے سامنے کوئی پردہ نہیں بنایا تھا۔” (سورہ کہف: 90)

سائنسی تشریح:

یہ مقام زمین کا کوئی حصہ نہیں ہو سکتا بلکہ کائنات کے وہ علاقے ہو سکتے ہیں جنہیں جدید سائنس میں نیبولا (Nebula) کہا جاتا ہے۔

1. نیبولا کیا ہے؟
نیبولا گیس اور دھول کے عظیم بادل ہیں جہاں نئے ستارے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ علاقے روشنی اور حرارت کے شدید اخراج کے لیے مشہور ہیں۔

قرآن میں “پردہ نہ ہونے” کا ذکر شاید نیبولا کے ماحول کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں گیس کے بادلوں کے درمیان روشنی کسی رکاوٹ کے بغیر خارج ہوتی ہے۔

یہاں نئے ستاروں کے بننے کا عمل جاری رہتا ہے، جو کائناتی زندگی کے تسلسل کی عکاسی کرتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں جو قوم آباد تھی وہ دن کو پانی میں رہتی تھی اور رات کو باہر نکلتی تھی کیونکہ سورج کی تابکار شعاعیں نقصان نہ پہنچا سکیں۔

ذوالقرنین کا مشن:

اس مقام پر حضرت ذوالقرنین نے ایک اور قوم کو پایا جو ان حالات کے مطابق زندگی گزار رہی تھی۔

اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے حوالے سے ذوالقرنین کو کوئی خاص حکم نہیں دیا، اور وہ ان لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر قوم کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے حالات کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔

تیسرا سفر: سدین (دو پردوں کے درمیان، کائناتی دروازے)

تیسرا سفر ایک منفرد مقام کی طرف تھا جسے قرآن “سدین” یعنی “دو پردوں کے درمیان” کہتا ہے۔

> “پھر وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا، اور وہاں ایک قوم کو پایا جو یأجوج و مأجوج کے حملوں سے پریشان تھی۔” (سورہ کہف: 93-94)

 

سائنسی تشریح:

یہ “دو پہاڑوں کے درمیان راستہ” زمین کا کوئی عام راستہ نہیں بلکہ کائنات کے دو عظیم پردوں یا خفیہ دروازوں کے درمیان ہو سکتا ہے۔

1. کائناتی پردے:
کائنات میں بلیک ہولز یا کائناتی رکاوٹوں کے درمیان کچھ ایسے علاقے ہو سکتے ہیں جو محفوظ راہداری کے طور پر کام کرتے ہیں۔

یہ راستے کسی خطرناک مخلوق یا توانائی کو محدود کرنے کے لیے بنائے گئے ہو سکتے ہیں۔

یہاں یأجوج و مأجوج جیسی مخلوقات کی موجودگی قرآن کے بیان کردہ خفیہ قوتوں یا کائناتی طاقتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

یأجوج و مأجوج کا مسئلہ:

یہاں ذوالقرنین کو ایک قوم نے مدد کے لیے پکارا جو یأجوج و مأجوج کے مسلسل حملوں سے پریشان تھی۔

یأجوج و مأجوج کو کائنات کی کسی مخلوق یا توانائی

Comments (0)
Add Comment