پاک افغان کشیدگی

ڈیرے دار  سہیل بشیر منج 

گزشتہ کئی روز سے پاک افغان جھڑپیں   جاری ہیں اس کی وجہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں ٹریننگ، پلاننگ اور موجودگی ہے افغانستان کی پاکستان کے ساتھ چونکہ ایک لمبی سرحد لگتی ہے جس میں زیادہ تر علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے اس لیے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے لیے آ سان ہے کہ وہ افغانستان سے اسلحہ حاصل کرتے ہیں کرم ،پاچنار، میدان اور  وزیرستان کے علاقے میں کاروائی کرتے ہیں اور واپس انہی پہاڑوں میں چھپ جاتے ہیں اسی دن یا پھر اگلے دن جب انہیں موقع ملتا ہے واپس افغانستان چلے جاتے ہیں  چونکہ یہ ایک لمبا عرصہ ہمارے ساتھ رہے ہیں ان کے لباس حلیے بول چال بالکل ہمارے جیسی ہے جو ان کے لیے فائدہ مند ہے

ان میں سے بیشتر کاروائیوں کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ ہے انڈیا پاکستان سے کسی بھی محاذ پر ڈائریکٹ جنگ نہیں چاہتا کیونکہ اس وقت اس کی فوج کی بڑی تعداد لداخ میں چین کے ساتھ مصروف عمل ہے اس لیے وہ پیٹھ پیچھے وار کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ہندوستان ویسے تو پاکستان کا ازلی دشمن ہے لیکن اس کی تکلیف سب سے اضافہ اس وقت ہوا جب پاکستان نے چین سے ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ خریدنے کا معاہدہ کیا اور جلتی پر نمک یہ ہے کہ پاکستان ترکی چین مل کر ففتھ جنریشن سپر سانک طیارے پاکستان میں بنانے جا رہا ہے یہ جہاز ایسی ٹیکنالوجی سے لیس ہیں کہ دنیا کے جدید ترین ریڈار بھی انہیں پکڑ نہیں سکتے ہندوستان نے تین سال پہلے جب جدید فائٹر جیٹ رافیل فرانس سے خریدے تھے اس وقت خطے میں ان کی فضائی برتری قائم ہو گئی تھی لیکن اللہ کا شکر ہوا کہ  پاکستان نے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ففتھ جنریشن سٹلتھ فائٹر جیٹ حاصل کر لیے تو  ہندوستان نے دوسرا راستہ اپنایا

سب سے پہلے انہوں نے افغانستان سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان پر حملے شروع کیے جب اس میں بھی ناکامی ہوئی تو انہوں نے اپنے میڈیا کے ذریعے وہان کی پٹی کا شوشہ چھوڑ دیا وہان وہ علاقہ ہے جو تاجکستان چین اور پاکستان سے ملتا ہے یہ علاقہ کوئی بہت بڑا نہیں لیکن بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ چین کا سی پیک اسی پٹی سے ہو کر تاجکستان میں داخل ہوگا یہ بات تو طے ہے کہ وہاں پر پاکستان نے کوئی قبضہ نہیں کیا ہاں اگر کل کلاں طالبان کے ظلم سے تنگ آ کر وہاں کے لوگ کوئی بغاوت کرتے ہیں اور افغانستان سے الگ ہو کر چین یا  تاجکستان سے مل جاتے ہیں یا اپنی ایک الگ ریاست وجود میں لے آتے ہیں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا وہان کے لوگ پہلے سے ہی افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بہت حد تک بدظن ہو چکے ہیں بہرحال وہان کو ایک طرف چھوڑ دیں یہ صرف ہندوستانی میڈیا کی طرف سے بنایا گیا پروپگنڈا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں

افغانستان اور ٹی ٹی پی کو پاکستان سے تکلیف اس وقت شروع ہوئی جب سے ریاست نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ہم ان کا مزید بوجھ برداشت نہیں کریں گے لہذا  غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغانوں کو واپس اپنے وطن جانا ہوگا بات بھی ٹھیک ہے ہم نے پچاس سال ان کا بوجھ اٹھایا انہیں کھانے کو گندم ،پہننے کو کپڑے اور علاج کے لیے ادویات دیں لیکن اس  کے بدلے انہوں نے ہمیشہ پاکستان سے نفرت کی گزشتہ سال بڑی تعداد میں افغانوں کو ان کے وطن واپس بھیج دیا گیا لیکن انہیں رنج اس بات کا ہے کہ وہ پاکستان سے بہترین روزگار کما رہے تھے اس  کے ساتھ وہ مختلف چیزوں کی سمگلنگ کر کے بھی پاکستان میں لاتے اور بیچ کر چلے جاتے لیکن اب تقریبا ایک سال سے انہیں یہ سہولت میسر نہیں رہی تو یہ لوگ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگے دراصل یہی

ان کی حقیقت ہے انہوں نے کبھی پاکستان سے محبت کی ہی نہیں تھی

اور ہندوستان کے ساتھ قربت کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں امریکہ ایک معاہدے کے تحت  ہر منگل کو براستہ

نیرو بی انہیں چالیس ملین ڈالر دیتا تھا جس کا مقصد انفراسٹرکچر کی بحالی میڈیکل اور تعلیم پر خرچ کرنا تھا لیکن افغان حکومت نے ان میں سے ایک ڈالر بھی کبھی اپنی عوام پر خرچ نہیں کیا بیس  جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں میرے خیال میں اب انہیں ان ڈالروں کا آڈٹ کروانا ہوگا جو وہ لیتے رہے ہیں اور یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ اب امریکہ انہیں مزید ڈالر نہیں دے گا افغانستان کا کوئی کاروبار تو ہے نہیں انہی ڈالروں کی وجہ سے ان کا نظام چل رہا تھا اس لیے افغان حکومت نے ہندوستان کو اپنے قریب کر لیا وہ چاہتے ہیں کہ امریکی ڈالروں کی بندش کے بعد کوئی دوسرا راستہ ہو کہ ان کا نظام چل سکے اب ہندو توا اور ابدالی، غزنوی کی اولادوں کا گٹھ  جوڑ بہرحال پاکستان کے لیے خطرے کی علامت ہے لیکن میری پاکستانی قوم سے اپیل ہے کہ برائے کرم افواہوں پر نہ جائیں آپ کی فوج جاگ رہی ہے انشاءاللہ اگر ہندوستان افغانستان کے راستے کوئی حرکت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف اپنی آٹھ ریاستوں اور چار کروڑ لوگوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا

Comments (0)
Add Comment