مطلب کے پُجاری

تحریر: خالد غورغشتی khalidghorghushti@gmail.com

انسان چاہے کتنے ہی بڑے منصب پر فائز کیوں نہ ہو، اگر اس میں ہمدردی نہیں تو اس کا وجود کارآمد نہیں رہتا۔ ہمارے ہاں شخصیت پرستی کا رونا دھونا تو عام ہے لیکن خود پرستی پر کلام کرتے ہوئے سب کی ٹانگیں کیوں کانپتی ہیں؟ دیکھیے اپنا اُلو تو سب سیدھا کر لیتے ہیں حتی کہ بچوں کا رزق تو جانور اور پرندے بھی جدوجہد کر کے حاصل کر لیتے ہیں۔ آج ہماری اکثریت ان کے نقش قدم پر کیوں ہے؟ جیسا وہ کھاتے پیتے اور بچوں کو جنم دیتے ہیں، اُنھیں اڑنے یا دوسروں کو چیر پھاڑ کر کھانے کا ڈھنگ سیکھاتے ہیں، ایسے ہی آج کل ہم بھی کارنامے سر انجام دیے جا رہے ہیں۔ ہر جائز و ناجائز طریقے سے گاڑیاں، بنگلے اور پلازے بنا کر اولادوں کی عیاشی کے لیے کثیر سرمایہ چھوڑ جاتے ہیں۔ اپنے لیے تو جانور اور پرندے بھی جیتے ہیں، لُطف تو تب ہوتا کہ ہم دوسروں کے لیے جینا سیکھتے، دوسروں کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھتے، ان کے دکھ، درد اور مصائب کو اپنا سمجھتے مگر افسوس انسانیت تو کب کی مر چکی ہے آج کل تو فقط مطلب زندہ ہیں۔

آپ دیکھتے ہوں گے، آج کے اکثر لوگوں کی کامیابی کا قرینہ فقط دولت ہے۔ اُنھیں اس بات سے کوئی سروک…

Comments (0)
Add Comment