والدین۔۔ اف تک نہ کہو

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے دعا کرنے کے لئے فرمایا ہے کہ اے اللہ تعالی ہمارے والدین پر اس طرح رحم فرما جس طرح کہ انہوں نے ہم پر بچپن میں رحم فرمایا تھا۔ قرآن کی فصاحت وبلاغت۔۔اللہ اکبر۔ ہر ہر لفظ اور فقرے میں پیغام اور پیغام بھی اپنی نوعیت کا منفرد اور نویکلا۔ بچپن میں رحم کی بات کرکے اللہ تعالی نے انسان کو جھنجھوڑا ہے کیونکہ جو کوئی بھی اپنے بچپن کو ٹھیک طریقے سے یاد کرتا ہے اس کو معلوم ہوتا ہے اس کا دنیا میں پہلا دن کتنا حساس اور نازک تھا اور پھر گرمی ہو یا سردی دونوں صورتوں میں رات کے لمحات۔ اتنا نازک اور نحیف بدن کہ ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا بھی ناقابل برداشت اور گرمی کی شدت کی وجہ سے سانس لینا بھی محال۔ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ بخار، زکام ، کھانسی، نزلہ، نمونیہ، پولیو اور کچھ بھی۔ ماں باپ ہیں کہ وارے وارے اور صدقے صدقے۔ خدا کی بارگاہ میں آہ و زاری اور ایک بچے کی زندگی کے لئے ساری پونجی خرچ۔ بچوں کی جان والدین میں اور والدین ہر قربانی کے لئے تیار۔ وقت کی سوئی مسلسل چل رہی ہے اور آج کل میں تبدیل ہورہا ہے۔ بچپن لڑکپن اور پھر جوانی اور وہ مستانی۔ میں نہ مانوں کسی کو۔ توں کون میں کون۔ والدین ہیں کہ اپنی ساری توانائیاں خرچ اور بڑھاپا حافظہ کمزور بلکہ ختم اور چڑچڑاپن۔ اس ساری صورت حال کا بھی اللہ نے ایک پلان انسان کی راہنمائی کے لئے دے دیا ہے۔ اگر تمہیں والدین بڑھاپے کی حالت میں ملیں اور ایسی بات کریں جو کہ تمہیں معلوم ہو غلط ہے پھر بھی اف تک نہ کہو۔ سبحان اللہ الہامی کتاب۔ راہنمائی، ہدایت اور روشنی۔ آنکھیں کھول دی گئی ہیں لیکن قرآن مجید یہ بھی اعلان فرماتا ہے کہ بینا اور اندھا برابر نہیں ہو سکتے۔ اور پھر عقل کے اندھے جن کو الٹا نظر آتا ہے۔ نظر نظر میں فرق ہوتا ہے۔ یہی زندگی کا کھیل ہے۔ “اکناں نوں رنگ چڑھ گیا اک راہے گئے امن امان”۔ ویسے بھی ہدایت منجانب اللہ ہے۔ متلاشیان حق پر حقیقت ومعرفت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اور جن کا من کالا ہو ان پر ہر قسم کے دروازے مستقل طور پر بند کردیئے جاتے ہیں اور آنکھوں پر جہالت اور ضلالت کی چربی چڑھ جاتی ہے۔ اور ایسے ناعاقبت اندیش لوگوں کو والدین جاہل اور گنوار معلوم ہوتے ہیں اور ان کے سارے کئے کرتے پر پانی پھر جاتا ہے۔ پوری فطرت یہ سارا کچھ دیکھ کر پانی پانی ہو جاتی ہوگی
گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں بیٹے اپنے والد کو اس لئے تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے کہ اس نے ان کے کہنے پر اپنی زمین بیچنے سے انکار کردیا تھا۔ فطری طور پر ہر شخص دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ایک شخص اس لئے باپ دادا کی جائیداد بیچنے سے انکاری ہے کہ اس کو بنانے پر اس کے آباو اجداد کا خون پسینہ لگا ہوا ہے۔ جب کہ دوسرا انسان اس لئے اپنے باپ کو مار پیٹ رہا ہے کہ وہ جائیداد کیوں نہیں بیچ کر پیسے اسکو دے رہا ہے۔ سوچ سوچ کا فرق ہے۔ والدین سے وابستگی اور وہ بھی دو مختلف قسم کی۔ اختلاف رائے کی تو شاید گنجائش ہو گی لیکن والدین کو مار مار کر لہولہان کرنے یا پھر ان کو دھکے دے کر گھر سے نکالنے کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ جہالت بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر پڑھا لکھا ہی جاہل ہو تو اس کا کیا کیجیئے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے میرے ایک دوست کے حوالے سے ایک نوجوان میرے پاس آیا۔ امریکہ سے تازہ تازہ پڑھ کے آیا تھا۔ روشن خیال اور اعلی تعلیم یافتہ۔ اس نے مجھے ایک درخواست پیش کی جس میں مدعی وہ خود تھا اور مدعا الیہ اس کا والد اور استدعا کی گئی تھی کہ اس کے والد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ہم ٹھہرے خالص دیہاتی لوگ۔ غیرت کھا گئے اور اس کو راہ راست پر لانے کے لئے وہ ساری آیتیں اور احادیث جو کہ باپ کے مقام کو واضح کرتی ہیں اس کو بغیر کومہ فل سٹاپ سنا دیں۔ وہ بھی جوشیلا جوان تھا۔ پھر تو خوب توتکار ہوئی اور ہم پر الزام لگا کہ مجھے اس کے والد نے خرید لیا ہے۔ خرید وفروخت اور ہمارا معاشرہ۔ سچ کہتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے باپ کے بھی نہیں ہوتے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ایک بیٹی کا برخلاف باپ تھا۔ دونوں سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ باپ نے ساری پونجی لگا کر بیٹی کو ڈاکٹر بنایا اور بیٹی باپ کے پانچ مرلے ہڑپ کرنے کی درپے ہوگئی۔ بے چارے بھائی چٹے ان پڑھ اور پھر باپ بیٹی آمنے سامنے۔ بنام وغیرہ میں پیش ہورہے ہوں گے۔ ایک باپ نے بیٹے کو ڈاکٹر بنایا اور بیٹے نے باپ کو گھر سے نکال باہر کیا۔ باپ اب واپس گھر جانا چاہتا ہے اور اس پر گھر کے دروازے بند۔ بیٹے کے نزدیک ابا نفسیاتی مریض ہو گیا ہے اور ابا اپنے بیٹے کی تلاش میں روزانہ تھانے کچہری کے چکر لگا رہا ہے۔ چکروں کی تعداد کا بھی اس کو کچھ علم نہیں ہے۔رولے سارے جائیدادوں کے اور خون مکمل سفید ہو گیا ہے۔ دیوانی معاملات بندوں کو دیوانہ بنا دیتے ہیں اور پھر باپ بیٹے اور ماں دھی کی تمیز ختم۔ اخلاقیات کا بستر گول اور اسبغول تے کجھ ناں پھرول۔
بچپن کے دن اور والدین کی محبتیں۔ لڑکپن کا ویلا، ماں کا زیور اور باپ کی “پیلی” اور پھر جوانی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ ایک نئی زندگی کا آغاز اور توں کون میں کون۔ بابا جھلا ہو جاتا ہے اور ماں دشمن۔ قیامت کی نشانیاں اور والدین بیچارے جائیں تو کہاں جائیں۔ قبر میں بھی ابھی جانے کا وقت نہیں ہوا ہے۔ دائیں بائیں رہنے والوں کو کسی کی کوئی فکر نہیں ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام بھی اپنے انجام کو پہنچنے جارہا ہے۔ اولڈ ہاوس کا کلچر ہمارے ہاں پیدا نہیں ہوا ہے۔ ہم ہر چیز کا

Comments (0)
Add Comment