بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

تحریر: خالد غورغشتی khalidghorghushti@gmail.com

بظاہر سب انسانوں میں کچھ نہ کچھ مماثلت پائی جاتی ہے، اگرچہ حقیقت کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔ ہمارے بزرگ جب کسی کی بلاوجہ تعریف سُنتے تو کہتے یہ پہاڑ دور سے ہی اچھے لگتے ہیں۔ اور ساتھ یہ جملہ بھی اکثر ان کی زبان پر ہوتا کہ جب تک کسی کے ساتھ جان پہچان نہ ہو، تعلقات نہ ہوں سفر نہ کیا ہو اور بھوت کی طرح وہ یا آپ ایک دوسرے پر سوار نہ ہوں تب تک اس کی تعریف و توصیف سے باز رہنا چاہیے۔ اس کے بارے میں رَطب السان پر مبنی جملے نہیں کہنے چاہیے، جملوں سے بات یاد آئی، یہ ہمارے ہی الفاظ ہوتے ہیں جو گدھے پر بھی بٹھاتے ہیں؛ گھوڑے پر بھی اور کبھی کبھی دوسروں کے دلوں پر راج بھی کرواتے ہیں۔ ہمارے بول آسانیاں بھی پیدا کرتے ہیں، مشکلات بھی اور دوسروں کےلیے نئی زندگی کا پیغام بھی۔ اس لیے یہ کس قدر پیارے جملے لگتے ہیں: “ہمیشہ خوش رہیے اور خوشیاں بانٹتے رہیے۔” الفاظ کا کوئی حجم نہیں ہوتا لیکن یہ انسان کی شخصیت کو چند لمحوں میں با وزن یا بے وزن بنا دیتے ہیں۔ کس قدر بوجھل ہوتے ہیں یہ الفاظ: اس کی شکل تو دیکھو، نہ مُنہ تے نہ مَتّھا تے جن پہاڑوں لَتّھا، یہ کس مرض کی دوا ہے؟ آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے، لکیر کا فقیر ہے، نکما جاہل اور نِکھٹو ہے۔ اس ساری تمہید پر یہ محاورہ کس قدر صادر آتا ہے کہ، “بندہ بندے دا مارو بھی ہے؛ بندہ بندے دا دارو بھی ہے۔” اس بات کو یہیں سمیٹنے سے قبل یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اپنے قول و فعل سے آسانیاں پیدا کیجیے؛ مشکلات تو پہلے بھی بہت ہیں، پیار دینے کی کوشش کیجیے؛ نفرتیں تو پہلے بھی بہت ہیں۔

عموماً آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ احساسِ کمتری کا شکار لوگ خود کو دوسروں سے مُعتبر سمجھنے کے لیے حاجی صاحب، حافظ صاحب، مولانا صاحب، امیر صاحب، نگران صاحب، بٹ صاحب، ملک صاحب اور خان صاحب وغیرہ جیسے القابات لگاتے ہیں۔ کیا آج تک ہم نے ان الفاظ کا حق بھی ادا کِیا ہے یا نہیں؟ یا اپنی ہی خودی کے خول میں جیئے جا رہے ہیں۔ یہ جو معاشرہ تباہی کے آخری دھانے پر کھڑا ہے؛ اس میں ہم سب کا کہیں نہ کہیں مرکزی کردار ہے۔ بطور استاد، بزرگ ہونے کے ناتے ہم نے نسلوں کے سنوارانے میں اب تک کتنا کردار ادا کیا ہے؟ یا ہم صرف اپنے اپنے القابات پر فخر کرتے ہوئے اس نظام اور حکمرانوں کو برا بھلا کہتے کہتے مر جائیں گے۔

آج ہر شخص زیادہ نہیں تو کم از کم اپنے ماتحتوں کے لیے مشعلِ راہ بنے کی کوشش کرے تو لاتعداد مسائل کا مُوثر کن حل ہو سکتا ہے۔ دیکھیے فرد سے معاشرہ بنتا ہے کسی فرد کو تعلیم و تربیت اور ہُنر سے سیکھا کر آپ اس کے پورے خاندان پر احسان کرتے ہیں اور اگر سب کچھ ہوتے ہوئے آپ ایسا نہیں کرتے تو بخیلی ہے یہ، رزاقی نہیں ہے۔

ہمیں بزرگوں کی حکایتیں پڑھ کر جو سکون و قرار مل رہا ہوتا ہے، یہ ان کی کرم نوازی اور خودداری و سخاوت کی اعلی مثالیں ہوتی ہیں، وہ نوازنے والے ہوتے ہیں اور ہم یہ جو بے چینی کی کیفیت کا شکار ہیں نا، اس میں ہمارے قول و فعل میں تضاد اور آپسی نفرتوں کا بنیادی کردار ہے، ہم دوسروں کو محروم کرتے ہیں وہ ہمیں کیسے عطا کریں گے؟ ہم انھیں حقیر سمجھتے ہیں؛ وہ کیسے ہمیں عزتوں سے نوازیں گے؟ سیانے کہتے ہیں تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے، جیسا کرو گے ویسا ضرور بھرو گے۔

یاد رکھیں! ہماری عزتوں کا آغاز القابات سے نہیں دوسروں کو حُسنِ خلق سے نوازنے سے ہوتا ہے، بھلے کسی سے مُسکراہٹ کا تبادلہ کر کے صدقہ کر لیجیے، کسی کو کاروباری طور پر مضبوط کیجیے یا کسی کی مشکلات میں ہاتھ بٹھائیے۔ یہ جو ہمارے ہاں رواج چل پڑا ہے کہ پیسہ ہے تو سب کچھ ہے، پیسہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پیسے انسان کو پائی پائی کی محتاجی سے بچاتا ہے، خود مختار بناتا ہے، تمام وقتی ضروریات پورا کرتا ہے، لیکن ذہنی سکون کے لیے روزمرہ میں کئی رشتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جس میں یار دوست، ماں باپ، بہن بھائی، محلے دار اور رشتے دار وغیرہ شامل ہیں۔ اس لیے پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ رشتوں کو بھی مضبوط بنانا سیکھیں۔

Comments (0)
Add Comment