شرح سود میں کمی کے اثرات

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا گیا، جس کے مطابق 200 بیسز پوائنٹس کی کمی کے بعد شرح سود 13 فیصد ہوگئی اعلامیے کے مطابق اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے پانچویں بار مسلسل ری کم کردیا ہے، 200 بیسز پوائنٹس کی کمی کے بعد شرح سود 13 فیصد ہوگئی۔یاد رہے کہ یہ کمی پانچویں بار کی جارہی ہے ۔اس کمی کے ساتھ ہی اس سال ماہ جون سے اب تک شرح سود مین مجموعی طور پر نو فیصد کمی کی جاچکی ہے ۔معاشی ماہرین ،تاجر اور سیاسی رہنماوں نے اسٹیٹ بنک کے اس پیر کو شرح سود میں کمی کے فیصلے پر ملے جلے رحجان کا اظہار کیا گیا ہے ۔ جو بہت مثبت دکھائی دیتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ مرکزی بنک نے شرح سود میں کمی کا تسلسل برقرار رکھا ہے جو کاروباری سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہو گا ،ان کا مزید یہ کہنا ہے کہ موجودہ ملکی اقٹصادی حالات کو دیکھتے ہوۓ اسٹیٹ بنک کو شرح سود میں مزید کمی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کی نمو اور کاروباری سرگرمیاں مزید بہتر ہو سکیں ۔شرح سود میں کمی لانے سے ملکی معیشت اور عام آدمی کو یقینا” فائدہ ہو گا ۔ گو کہ عام آدمی کو اس سے براہ راست فائدہ تو نہیں ہوگا لیکن یہ ضرور ہے کہ جب شرح سود کم ہوتی ہے تو تاجروں ،صنعت کاروں اور دیگر کو حکومت سے قرض لینے میں کسی قدر آسانی ہوتی ہے ۔ جب شرح سود زیادہ ہوتی ہے س وقت ملک میں بڑے بڑے سرمایہ دار اس بات کو ترجیح دے رہے ہیں کہ بہتر منافع کے حصول کے لیے وہ اپنی رقوم کسی بڑے منصوبے اور تجارت میں لگانے کے کی بجاۓ بینکوں میں رکھیں ۔تاکہ بہتر منافع کا حصول ممکن ہو سکے ۔لیکن شرح سود کمی لانے سے یہ پیسہ پھر سے مارکیٹ میں آۓ گا اور تجارت میں لگنے سے ملکی معیشت اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آے گی ۔اور جس کا کسی نہ کسی صورت میں فائدہ ضرور عام آدمی تک پہنچے گا ۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ مہنگائی سال در سال توقعات کے مطابق نومبر میں 4.9 فیصد ہوگئی، صارفین اور کاروباری اداروں کی مہنگائی کی توقعات متضاد ہیں، معیشت کے حالیہ اعداد نمو کے امکانات بہتر ہونے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ پالیسی ریٹ میں احتیاط سے کمی نے مہنگائی اور بیرونی کھاتے پر دباؤ کو قابو میں رکھا اور پالیسی ریٹ میں احتیاط سے کمی پائیدار بنیاد پر معاشی نمو کو تقویت دے رہی ہے، جاری کھاتہ اکتوبر میں مسلسل تیسری بار فاضل ر ہا اور فاضل رہنے سے زرمبادلہ ذخائر 12 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی سے درآمدی بل اور مہنگائی میں کمی ہوئی، ٹیکس وصولی اور ٹیکسوں کے اہداف کا فرق بڑھ گیا ہے، اس حوالے سے مشیر وزیر خزانہ خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ شرح سود میں کمی سے پیداواری لاگت میں کمی آئے گی۔ جبکہ ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ حکومت کو مہنگائی کی شرح پر نظر رکھنا ہوگی تاکہ شرح سود بڑھانا نہ پڑے، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ اب بھی ایک مسئلہ ہے۔ مزید کہا جارہا ہے کہ شرح سود کا 22 فیصد سے 13 فیصد پر آنا ایک بڑی پیشرفت ہے، بجلی کی قیمتوں اور نظام کی تنظیم نو صنعتوں کیلئے بہت ضروری ہے۔جس کے لیے شرح سود میں کمی ناگزیر ہے ۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پالیسی ریٹ میں کمی سے پاکستانی معیشت پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ ایک بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کم افراط زر کی شرح کی بدولت پالیسی ریٹ میں کمی آئی ہے، امید کرتے ہیں آنے والے مہینوں میں افراط زر میں مزید کمی ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کی بحالی کے حوالے سے وزیر خزانہ اور دیگر متعلقہ اداروں کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔معاشی ماہرین کا کہنا یہ بھی ہے کہ ملکی معیشت کے لیے آمدنی میں اضافہ ضروری ہوتا ہے ۔اس کے لیے ملکی برآمدات کو بڑھانا ہو گا ۔پیداواری لاگت میں کمی ہوگی تو برآمدات میں اضافہ ہوگا اور ملکی معیشت کو سہارا ملے گا ۔اس کے علاوہ شرح سود کمی کا فائدہ کسی حد تک عام آدمی تک بھی ضرور پہنچے گا ۔گھر ،گاڑی اور ذاتی قرضہ لینے والے افراد اب کم ریٹ پر یہ سہولتیں حاصل کر سکیں گے ۔اس کے علاوہ روزمرہ کاروبار سے وابستہ بڑے سیکٹر ز اپنی لاگت کی کمی کو نچلی سطح تک منتقل کریں تو اس سے بھی عوام کو براہ راست فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔جبکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ میں لانا ہو گا تاکہ کاروباری سرگرمیوں میں بہتری لائی جاسکے ۔وہ انڈیا بنگلہ دیش اور ویت نام کا حوالہ دیتے ہیں جہاں شرح سود بالترتیب ساڑھے پانچ ،دس اور ساڑھے چار فیصد ہے ۔وہ پاکستان میں بھی نو سے سات فیصد تک کی توقع رکھتے ہیں ۔ ماہرین معیشت کی راۓ میں حالیہ شرح سود میں کمی سے یقینا” نہ صرف کاروباری تیزی دیکھنے میں آے گی بلکہ اس کے اثرات روزمرہ مہنگائی اور افراط زر میں کمی لانے کا باعث بنیں گے ۔شرح سود میں اس کمی سے اسٹاک مارکیٹ مستحکم ہوگی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا ۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بلند شرح سود کے بہت سے مضر اثرات دیکھنے میں آتے ہیں ۔جب شرح سود لمبے عرصے تک بہت کم رہنے کے بعد بڑھتی ہے تو بینک پر بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔ مہنگے بینک ڈیپازٹس میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے ۔جب شرح سود بڑھتی ہے تو سرمایہ کار پرانی انویسٹمنٹ سے پیسہ نکال کر نئی انویسٹمنٹ میں لگا دیتے ہیں مثلا” پرانے حکومتی بونڈز بیچ کر نئے حکومتی بونڈز خرید لیتے ہیں ۔مہنگا ہونے کی وجہ سے قرض لینے کا رجحان کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری اور مقابلے کی فضا گھٹ جاتی ہے ۔ قسطوں پر مکان ،گاڑی خریدنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔۔ نئی سرمائیہ کاری اور کھپت کم ہونے سے ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ بچت کا رجحان بڑھ جاتا ہے کیونکہ بینک میں بچت کی رقم رکھنے پر اب زیادہ منافع ہوتا ہے۔ بچت کی وجہ سے بازاروں میں مال کی فروخت اور کم ہو جاتی ہے۔ملکی کرنسی کی قیمت بڑھنے سے برآمدات میں کمی آجاتی ہے جبکہ درآمدات بڑھ جاتی ہیں ۔جب بچت اور بنک ڈیپازٹ بڑھتے ہیں تو زیر گردش نوٹوں کی مقدار میں کمی آتی ہے ۔حکومت پر واجب الادا قرضوں کی قسطیں بڑھ جاتی ہیں ۔امیروں کو اپنی بچت پر زیادہ سود ملتا ہے اس لیے وہ امیر تر ہوتا جاتا ہے جبکہ غریب پر بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔جب شرح سود بڑھتی ہے تو پہلے سے جاری شدہ حکومتی بونڈز کی قیمت گرتی ہے ۔مارکیٹ میں سونا مہنگا ہو جاتا ہے ۔بےروزگاری بڑھتی ہے ۔اس لیے شرح سود میں کمی دراصل ملک کی معیشت کی بہتری سمجھی جاتی ہے ۔موجود ہ شرح سود میں لگاتار کمی کے مثبت نتائج سامنے آنے کا قوی امکان ہے ۔
دوسری جانب شرح سود کی کمی سے چھوٹی چھوٹی بچت والے وہ عام اور غریب لوگ ضرور متاثر ہو نگے جن کی رقوم بہبود اکاونٹ ،پینشنرز فنڈ اکاونٹ یا پھر بینکوں کےماہانہ ادائیگی کے اکاونٹ میں جمع ہیں اور اس ماہانہ منافع سے ان کی روزمرہ زندگی کے خرچ کا دار ومدار ہے ۔یہ لوگ وہ بوڑ ھے اور ضعیف لوگ ہیں جو اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی بنک یا مالیاتی اداروں می رکھ کر اپنا گزاوقات کرتے ہیں ۔ان کے ماہانہ منافع میں کمی سے وہ اس مہنگائی کے دور میں مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ان کے بارے میں خصوصی توجہ درکار ہو گی ۔ جس کی وجہ سے قومی بینکوں اور قومی بچت کے سیونگ اور لانگ ٹرم ڈیپازٹ میں کمی بھی متوقع ہو سکتی ہے ۔ امید ہے کہ شرح سود میں اس کمی کے اثرات ان چھوٹی چھوٹی بچتوں اور ڈیپازٹس پر کم سے کم پڑیں گے ۔یہی ہماری معاشی حکمت عملی کی کامیابی کی دلیل ثابت ہوگی ۔

Comments (0)
Add Comment