ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

بشیر احمد حبیب

دشتِ امکاں

(دوسرا حصہ )

سید شاہد ناصر ، Auburn یونیورسٹی امریکہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی University کے استاد بنے ، اور ایک دن اپنی والدہ کی محبت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آ گئے ، فارماسیوٹیکل کمپنیز جیسا کے Wyeth , Sandoz میں اعلی عہدوں پر فائز رہے اور پھر ملٹی نیشنل کمپنی اسپرو نیکولس میں بطور فیکٹری منیجر خدمات سر انجام دیں ، یہ کمپنی چونکہ کراچی میں تھی اور ان کی والدہ لاہور میں رہتی تھیں ، یہ سوچ کر کہ میں نے ماں کے لیے امریکہ چھوڑا تو کراچی رہنے کا کیا جواز ، اسی دوران ایک نئی جرمن کمپنی Schering لاہور میں اپنا پلانٹ لگا رہی تھی ، اس میں Apply کیا ، جرمنی جا کر انٹرویو دیا اور سلیکٹ ہو گئے اور یوں ماں کے پاس واپس پہنچ گئے ۔ اور اس کمپنی کے platform سے ان کو وہ سب کچھ ملا جو وہ امریکہ میں چھوڑ کر آئے تھے ، باوردی ڈرائیور سے لے کر DHA میں گھر ، نوکر چاکر اور ہر وہ خوشی جو انسان سوچ سکتا ہے وہ اکثر کہتے تھے یہ مجھے ماں کی خدمت اور ان کی دعاوں سے ملا ہے۔

اور ہماری خوش قسمتی دیکھیئے جب فارماسسٹ بنے تو Schering میں internship کے لیے apply کیا اور یوں پہلے دفعہ directly ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔

گو وہ نماز جمعہ خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے تھے مگر وہ بھی سعیداللہ فاروقی کی طرح مزہب میں انتہا پسندی کی روایت سے بہت دور تھے ۔ اور سچ اور عدل کے جو معیار انہوں نے اپنی زندگی میں نافذ کر رکھے تھے میں نے بہت سی مزہبی شخصیات میں بھی نہیں دیکھے ۔ میرٹ کو ایسے follow کرتے جیسے لوگ شریعت کو follow کرتے ہیں۔ کم از کم مجھے اس materialistic دور میں ان جیسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔ مثلآ میں نے Production Officer کے طور پر کمپنی کو join کیا جبکہ میری کوئی سفارش نہیں تھی اور یہ سلیکشن انٹرویو کے بل بوتے ہوئی ۔

میرے کام کو دیکھتے پہلے Executive
اور پھر منیجر کے عہدے پر ترقی دی ، مجھے یاد ہے پہلی دفعہ نئی کرولا لے کر جب میں گھر لوٹ رہا تھا تو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے میری آنکھوں سے اشک رواں تھے اور دل سے اس رئیل Leader کے لیے دعائیں نکل رہی تھیں جس نے محض میرٹ کو follow کرتے ہوئے مجھے اس عہدے پر ترقی دی۔

صرف میں ہی نہیں میرے ساتھ جنتے best پرفارمرز تھے سبھی نے grow کیا ۔ Supply چین کے حوالے سے جرمنی میں جتنی بھی میٹنگز ہوتیں ، ہیڈ آ ف ڈیپارٹمنٹ کے طور پر وہ ہمیشہ مجھے بھجواتے گرچہ وہ خود بھی جا سکتے تھے ، یوں انہوں نے یورپیئن پلانٹس اور منیجمنٹ سے براہ راست سکھنے کے مواقع فراہم کرنے ۔ گاڑیاں اور عہدے بدلتے رہے اور ایک وقت یہ بھی آ یا تمام بڑے ڈیپاٹمنٹس جیسا کہ production , میٹریل کنٹرول ، سٹورز اور distribution سب میرے انڈر کر دیے ۔ یہاں تک کہ جب وہ کمپنی کے وائس چیئرمین بورڈ بنے تو مجھے فیکڑی منیجر کی اضافی زمہ داری بھی سونپ دی ۔

میرٹ کا اس طرح کا احترام میں نے ان کی Leadership کے علاؤہ بہت کم دیکھا ۔ مجھے یاد ہے Trackاین ٹائی نئی عمارت میں شفٹ ہوئی تو تمام بزنس گروپس کو ایک بہت بڑی reception دی گئی ۔ ہماری ٹیم بھی invited تھی ، جب ایوارڈ لینے کی باری آئی تو اوروں کی موجودگی میں کہا یہ ایورڈ کمپنی کے behalf پر بشیر وصول کرے گا کیونکہ جو شعبہ Track این ٹائی سے متعلق ہے اس کا Head بشیر ہے، یہ ایوارڈ اس لیے خاص تھا کہ وہ احمد ندیم قاسمی کے ہاتھوں سے لینا تھا ۔ یہ ان کے میرٹ کو فالو کرنے کی ایک معمولی مگر اہم مثال ہے ۔

ریٹائرمنٹ کے بعد ، DRAP اسلام آ باد میں لائسنسگ بورڈ کے ممبر رہے ، پھر Applet بورڈ کے ممبر بنے اور یوں فارماسیوٹیکل سیکٹر میں تمام عمر خدمات سر انجام دیں۔ آج بھی منیجمنٹ یا فارماسیوٹیکل مسائل کے حوالے سے کوئی رہنمائی چاہیے ہوتی ہے تو بلا جھجک فون ملا کر discussion کرنے کی صحولت بھی موجود ہے اور اختلاف کرنے کی گنجائش بھی ۔

عدل اور انصاف کا دامن تھام کے، میرٹ کے عین مطابق خود کو ملے ہوئے اختیارات کا استعمال اگر کسی نے احسن طریقے سے کیا ہے تو اس میں سید شاہد ناصر کا نام بہت اوپر ہے ۔ اور یہی وہ روایت ہے جس کو ذاتی اور اجتماعی طور پر نافذ کرنے کی زمہ داری اب ہماری ہے۔

یہ ان ہی کی تربیت اور guidance تھی کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ، زندگی میں تمام صحولتیں اور آسائشیں ملیں ، بیسیوں ممالک کا سفر کیا ، بچے امریکہ میں پڑھا لیے اور DHA میں گھر بنا لیا ۔ الحمدللہ ۔

جب کسی کو استاد مانا اور پھر اس کی تعظیم میں انتہا کر دی اگر اس کی کوئی زندہ مثال دیکھنی ہے تو ہمارے نوید صادق کو دیکھئیے ، آلِ احمد کو شاعری میں استاد مانا اور پھر ان کی وفات کے بعد آج تک ان کے نام اور ان کی تنظیم کارواں کو جس طرح زندہ رکھا وہ انہی کا حصہ ہے ۔ خاص طور پر آل احمد کے دنیا سے چلے جانے کے بعد جس طرح بے لوث محبت کا تعلق ان کے شخصیت کا حصہ بنا وہ یقیننا ہم سب کے لیے قابل تقلید ہے ۔ خالد احمد ، خورشید رضوی ، غلام حسین ساجد اور خالد علیم کے لیے جو محبت اور تعظیم میں نے ان کے ہاں دیکھی اس نے مجھے حیران کر دیا ، وہ کہتے یہ میرے اساتزہ ہیں ، یہاں تک کے ان دنوں خالد علیم شدید علیل ہیں تو ان کے علاج اور خدمت کے لیے اپنے گھر لے آئے ، اس حوالے سے میں ان کی پوری فیملی کی بھی تعریف کرتا ہوں کہ آ ج کے دور میں جب بچے اپنے ماں باپ کو نہیں پوچھتے استاد کے لیے ایسی روایت کا زندہ رکھنا کسی معجزے سے کم نہیں۔

خالد احمد کے حوالے سے نوید صادق بتاتے ہیں کہ لاہور کے ادباء کے لیے وہ علم و آ گہی

Comments (0)
Add Comment