کنکریاں۔۔۔زاہد عباس سید
مجھے وہ محفلیں آج بھی یاد ہیں جب دفتر سے پریس کلب اور” یاکو” کے ہوٹل پر شب بھر دوستوں کے درمیان رہنا اور اپنے بزرگ دوستوں کی گفتگو سنتے ہوئے صبح کا ستارہ دیکھنے پر ہی گھر جایا کرتے تھے بقول شاعر
طلوع صبح تلک یار بیلیوں میں رہا
میں شہر یاد کی روشن حویلیوں میں رہا
ان محافل میں اعجاز رضوی ،ریاض صحافی ،طارق جاوید میرے ساتھ ہی دفتر سے نکلتے ۔پریس کلب جو ان دنوں دیال سنگھ مینشن مال روڈ لاہور پر ہوا کرتا تھا میرے عزیز بزرگ دوست راس طارق باجوہ بھی اکثر یہاں آجایا کرتے تھے جبکہ اعجاز رضوی کے قریبی دوستوں میں معروف شاعر اختر حسین جعفری اور احمد راہی اکٽر ان محافل کو گرماتے ،عالی رضوی اور شفقت تنویر مرزا بھی اکٽر “یاکو ”کے چائے خانے پر ہمیں “جائن”کرتے اور رات گئے ان کی یادوں کے ساتھ گزرتی ،شاعری بھی ہوتی ،کیونکہ سینئر صحافی اعجاز رضوی خود بہت بڑے شاعر ہیں ،اور انہوں نے ہی مساوات کا ادبی ایڈیشن تیار کرنے کی ذمے داری مجھے سونپ رکھی تھی ۔اس زمانے میں جب خاکسار مساوات کا ادبی ایڈیشن تیار کرتا رہا مساوات میں ظہیر کاشمیری ،اظہرجاوید ،احمد بشیر ،حمید اختر ،محسن نقوی ،اعجاز رضوی ،احسان رانا،منو بھائی،ضیاء ساجد،حمید اختر ،عباس تابش بھی کام کررہے تھے،یعنی اخبارات میں ادبی قد کاٹھ رکھنے والے سینئر ساتھیوں میں پاکستان کا معیاری ادبی صفحہ تیار کرنے کا اعزازمجھے بخشا گیا ،جس کی احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیرآغا نے بھی تعریف کی ۔اسی حوالے سے کچھ معاصر شاعروں ،ادیبوں اور صاحب کمال صحافیوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ،ان احباب کی محافل میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ،محترم اعجاز رضوی نے ہی مجھے انگریزی کے معتبر صحافی خالد احمد سے ملوایا ،انتہائی مختصر ملاقاتوں کے دوران خالد احمد کے بارے میں کوئی رائے تو قائم کرنا مشکل تھا مگر جس ہستی یعنی حضرت اعجاز رضوی کے لبوں پر خالد احمد کی توصیف کے جملے آجائیں یہ کسی معجزے سے کم نہ تھا کیونکہ ہماری اس محفل کے انتہائی معزز اور عالم فاضل دوست اعجاز رضوی تھے جو جس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتے وہ حرف آخر ہوا کرتی تھی ۔اعجاز رضوی تو اس عہد کے نامور صحافیوں کو بھی “بونے ”قراردیتے ،وہ بڑے نامور صحافیوں کی حقیقت جانتے تھے اور سچ زبان پر لانے میں کوئی تاخیر نہیں کرتے ،وہ برملا سب کچھ سامنے بلکہ منہ پر سلیقے سے کہنے کا ہنر بھی جانتے تھے انکی زبانی جب خالد احمد کے بارے میں تعریفی جملے سنے تو مجھے خالد احمد سے ملنے کا شوق پیدا ہوا اور کئی بار ہم نے ان سے ملنے کا پروگرام بنایا مگر موقع نہ ملا پھر برسوں بعد مساوات کی بندش کے بعد اسکے ڈمی اخبار کے طور پر دوبارہ اجرا کے زمانے میں کوئنز روڈ پر اعجاز رضوی نے انگریزی اخبار فرنٹیئر پوسٹ “جائن “کرلیا ،خاکسار نے سعید صفدر کے ساتھ نوائے گروپ کے لئے فیچر رائیٹنگ شروع کردی ۔اسی زمانے میں اعجاز رضوی اور احمد سلیم فرنٹیئر پوسٹ پبلیکشنز سے بھی وابستہ ہوئے تو پھر سے ہماری محفلیں جمنے لگیں ،یہاں کئی سیاستدان بھی آنے لگے ،اکبر بگٹی تو شام کو اکٽر “یاکو ”کے چائے خانے پر آجاتے ،اسی دور میں اعجاز رضوی اور احمد سلیم نے اپنے اسی دفتر میں ہی دن بھر علمی وادبی محفلیں سجانے کا اہتمام کررکھا تھا ۔مجھے اعجاز رضوی نے ایک شام تاکید کرکے صبح دفتر بلایا اور بتایا کہ کراچی سے کل خالد احمد آرہے ہیں ۔وہ ممکن ہے فرنٹیئر پوسٹ کا حصہ بن جائیں ،میں اعجاز رضوی کے دفتر انکےآنے سے بھی پہلے پہنچ گیا ،احمد سلیم کچھ دیر بعد دفتر تشریف لے آئے ُ۔اس زمانے میں صحافت چھوڑ کر اب وکالت میں نام کمانے میں مصروف ہونے والے عادل شہر یار کھچی بھی ان دنوں فرنٹیئر پوسٹ کا حصہ تھے ،مجھے دیکھتے ہی احمد سلیم نے بتایا کہ اعجاز رضوی تشریف لانے والے ہیں وہ اپنے دوست خالد احمد کو شاہد لیتے آئیں گے ،کیونکہ انہوں نے خاتون رپورٹر پروین خان کے ساتھ جانا ہے ابھی وہ یہ بات بتا ہی رہے تھے کہ اعجاز رضوی اور پروین خان تشریف لے آئے ،پروین خان نے کہا کہ وہ اب خالد احمد کو لینے جائیں،جس پر اعجاز رضوی نے انہیں رخصت کیا ،غالبا اشرف لودھی انکے ساتھ گئے اور تقریبآ دو ڈھائی گھنٹے بعد پروین خان کا فون آیا کہ خالد احمد نے میری گاڑی میں سفر کرنے سے اس لئے انکار کردیا ہے کہ اس پر “پریس “لکھا ہوا تھا ۔اسی دوران پتہ چلا کہ خالد احمد ٹیکسی کرائے پر لیکر روانہ ہوچکے ہیں اس دوران فرنٹیئر پوسٹ کی انتظامیہ سے اعجاز رضوی کے ساتھ شائد انکی میٹنگ کا وقت ہوگیا اور ہم صرف ان سے ہاتھ ملاکر وقت کی تنگی پر ہاتھ ملتے رہ گئے کیونکہ خالد احمد کی تحریریں تو ضرور پڑھی تھیں مگر جو ہماری پرانی ساتھی مساوات کے زمانے کی رپورٹر پروین خان کی کار میں صرف نمبر پلیٹ پر “پریس ”لکھے جانے پر سفر کرنے سے انکار کیا اس نے تو جیسے صاف ،ستھری صحافت میں ایک نئی طرح ڈال دی ہو ،ایسا کردار ہی سچ کو من وعن عوام کے سامنے لانے کی صلاحیت رکھتا ہے ،گزشتہ روز برادرم ٽقلین امام کی پوسٹ سے خالد احمد کے انتقال کی خبر ملی تو خاکسار نے خاتون رپورٹر پروین خان کے ساتھ پیش آنے والے اسی واقعہ کو برجستہ بیان کرڈالا ،خالد احمد کے سچ کو وقت کی گرد نے دبایا نہیں ،وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں گئے انکے خیالات تبدیل نہیں ہوئے،انکا سچ ہمیشہ ذہنوں پر نقش رہتاہے ،یہی ان کا کمال ہے۔