تحریر: خالد غورغشتی
عزیز دوستو زندگی اللّٰہ عزوجل کی عظیم نعمت ہے۔ اس کی ایک ایک سانس اور لمحہ ہمیں پروردِگارِ عالم نے بطور امانت اپنی اور مخلوق خدا کی خدمت کے لیے عطا کر رکھا ہے۔ ہر وہ کام کہ جس سے مخلوق خدا کو تکلیف پہنچے، نہ صرف موجبِ تباہی ہے بلکہ آخروی نقصان کا بھی سبب ہے۔ اس لیے ایک روایت میں ہے کہ تمام مخلوق حق تعالی کا کُنبہ ہے۔ خالقِ کائنات کو سب سے عزیز وہ شخص ہے جو اس کی مخلوق سے بھلائی کرے۔
افسوس ہمیں تو گھٹی میں بغض، حسد اور کینہ سیکھایا جاتا ہے۔ اکثر ہمارے رویے ایسے ہوتے ہیں کہ دوسروں کو ذات پات، امیر غریب کی وجہ سے حقیر سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ مشہور ناول نگار نسیم حجازی نے اپنے ناول سو سال بعد کے باب چور بازار میں لکھا ہے کہ: ” 2015ء میں یورپ اور امریکہ کے سائنس دان مریخ پر پہنچنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے تھے لیکن ہندوستانی بہترین دماغ فقط جانوروں سے نجات حاصل کرنے کی تدابیر پر غور و فکر کر رہے تھے۔”
کس قدر گہری بات محترم کر گئے جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ یورپی دنیا چاند ستاروں اور سیاروں پر کمند ڈال چکی ہے اور ہمارے لوگ آج بھی وہی رسم و رواج، مہنگائی، بے روزگاری اور نفرتوں کے سایے میں جی کر یہاں سے کسی دوسروں ملک جا کر ہی سکون کی سانس لیتے ہیں۔ ہر زبان پر ایک نغمہ ء مایوسی ہے کہ کاش وہ یہاں پیدا ہی نہ ہوتا۔ کاش وہ یورپ میں جا کر پڑھتا، کاش اسے بیرون ملک کا ویزہ مل جاتا اور وہ خاندان سمیت وہیں مستقل رہائش پذیر ہو جاتا تاکہ اسے اپنے اردگرد کے حیوانوں اور درندوں سے نجات ملتی۔
اے کاش ہمارے اردگرد مذہب، سیاست اور نسل پرستی کے نام پر نفرتیں پھیلانے والوں کو کوئی یہ بتاتا کہ مسلمان تو رہے مسلمان پوری مخلوق اللّٰہ کی پیدا کی ہوئی ہے اور سب محبتوں کے متلاشی ہیں۔ مولانا حالی کیا خوب فرما گئے:
یہ پہلا سبق تھا، کتاب ہدی کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
ہمارا دین کسی صورت یہ پسند نہیں کرتا کہ امیر غریب، کمزور طاقت ور، عقل مند بیوقوف بن کر ایک دوسرے کو حقیر سمجھیں یا نقصان دیں۔ ہمارے ہادی و پیشوا امام الانبیاء نے بہت پہلے امت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرما دیا تھا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ دوسرا مسلمان محفوظ ہو، بلکہ اس حد تک فرما دیا تھا کہ جو تم اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرو اللّٰہ تمھیں کامل مومن بنا دے گا۔
اسی طرح بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مومن کی حرمت کعبہ سے بڑھ کر ہے۔ کسی مسلمان کی بلاوجہ بےعزتی کرنا شرعاً سختی سے منع ہے اور بعض صورتوں میں حرام قرار دی گئی ہے۔
روایتوں میں ہے کہ سود کا ایک درہم لینا 36 بار ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے اور کسی مسلمان کی بے عزتی کرنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔ دوسری جگہ آیا ہے کہ سود 72 گناہوں کا مجموعہ ہے اور ادنی ترین ماں سے زنا برابر ہے اور کسی مسلمان کی بے توقیری کرنا اس سے بڑا گناہ ہے۔ اسی کی ترجمانی کرتے خواجہ میر درد نے کیا خوب فرمایا:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
محترم قارئین اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اللہ کی عبادت کے لیے فرشتے اور جنات ہی کافی تھے۔ انسان کی پیدائش اور اشرف المخلوقات کا درجہ دینا سب کے لیے حیران کن تھا۔اس لیے فرشتوں اور جنات نے جب اپنے نوری اور ناری ہونے کا برملا اظہار کیا اور خاکی کو افضل قرار دینے کی وجہ دریافت کی تو اللّٰہ عزوجل نے صاف صاف اعلان فرما دیا، “اے فرشتو اور جنّوں تم وہ نہیں جانتے ہو، جو میں جانتا ہوں”۔
محترم دوستوں آج انسان رب العالمین کا دیا ہوا منصب کھوتا چلا جا رہا ہے۔ وہ چند سکوں اور زمین کے ٹکڑوں کے خاطر اپنوں سے ہی برسر پیکار ہے۔ جس خاکی کی پیدائش پر پرودِگارِ عالم نے اپنی مخلوق کے سامنے فخر کیا تھا آج وہ اپنی نفرتوں سے اپنا نائب ہونے کا منصب کھونا چاہتا ہے۔ آج ہمیں پھر سے اپنے وجود کو گناہوں اور نفرتوں سے کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہم اسی مقام پر فائز ہو سکیں جس کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں۔ حضرت اقبال اسی انسانی عروج کو کس قدر بہترین انداز میں پیش کر گئے:
عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری
ماسوائے اللّٰہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تربیر تیری
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہ سچ ہے کہ سب سے مُشکل کام انسان بننا ہے کہ درندے اور جانور تو جگہ جگہ گھومتے پھرتے ہیں۔ آج ہم اس لیے ناکام و نامراد ہیں کہ ہمارے اندر سے انسانیت مٹ چکی ہے اور سفاکیت رہ چکی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم صرف مطلب کی حد تک تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے غالب نے کیا خوب کہا:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
کھٹن حالات میں جینا کس قدر بوجھل ہوتا ہے، مرنے کے لیے تو یہاں ہر کوئی تیار ہے کاش کوئی جینے کا بھی ڈھنگ سیکھے اور سیکھائے۔ ہمارے دینی طبقے کے لوگوں نے جتنا مرنے کے بعد تیاری کرنے کی تعلیم و تبلیغ کی، کاش وہ جینے کی اتنی کرتے تو شاید لوگوں کی دُنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جاتی۔ مرشدی احمد ندیم قاسمی شاید اس لیے دینی طبقے کو للکار گئے:
موت سے کس کو مفر ہے مگر انسانوں کو
پہلے جینے کا سلیقہ تو سیکھایا جائے
آخری پیغام کہ آج کل ہمارے تعلیمی ادارے بڑی بڑی ڈگریاں اور سندیں جاری کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے آفیسرز، انجینئر، فلاسفر، ڈاکٹر، حافظ، قاری اور عالم تیار کر رہے ہیں