ن و القلم۔۔۔مدثر قدیر
خواجہ انور سعید سے میرا تعلق بچپن ہی سے تھا اور جب میں 90ء کی دھائی میں پاک ٹی ہائوس میں وارد ہوا تو سب سے پہلے ان ہی کی ٹیبل پر میری رسائی ہوئی جہاں پر مجھے محمد صدیق ملک جیسی مہربان شخصیت ملی ،ان ہی کی صحبت میں میری ملاقات ندرت الطاف،راجہ کلیم اختر ِ،یونس ادیب ، سلیم شاہد اور سائیں اختر لاہور ی جیسی بڑی ادبی شخصیات سے ہوئی اس ٹیبل کے پیچھے ذاہدڈار،مسعود آشراور انتظار حسین کی محٖفل جمتی تھی برحال خواجہ انور سعید اور محمد صدیق ملک کی محفل میں مجھے کئی باتوں کی حقیقت کا پتہ چلا جیسے سابق وزیر اعظم نواز شریف کیسے ریلو ے کی جانب سے کرکٹ کھیلتے تھے اس نشست کی وجہ سے مجھے کبڈی کے عظیم کھلاڑی عبدالرحمان ہرکولیس،برگئیڈئر روڈم اور سراج پہلوان منیلا چمپئین جیسی شخصیات کی کہانیاں سننے کو ملیں اور اسی محفل میں میری ملاقات چوہدری سعید اختر سے ہوئی جو محکمہ انہار سے جبری ریٹائرڈ ہوئے اور سیدھا پاک ٹی ہائوس میں داخل ہوکر انہی نشستوں کاحصہ بنے ان سے جب میری ملاقات ہوئی تو اس وقت وہ 70 ء سال کے تھے مگر چاک وچوبند تھے اور پیدل چلنے کو ترجیع دیتے تھے ۔خواجہ انور سعید اور چوہدری سعید اختر کی قدرے مشترک شادی نہ ہونا اور شوگر کے مرض کو شکار ہونا تھا،خواجہ انور سعید کھانے کے شوقین لاہور اور سعید اختر کم کھانے اور داستان گو تھے۔خواجہ انور سعید ہائی شوگر لیول جبکہ چوہدری سعید اختر لو شوگر لیول کی بیماری کا شکار تھے ان کی محفلیں اور اس میں ہونے والی گفتگو بڑی دلچسپ ہوتی تھی جیسے چوہدری سعید اختر شاعر ظفر اقبال کے مداح ور دیگر شاعروں کو ان سے کم تصور کرتے تو خواجہ انور سعید میرزا ادیب اور سلیم شاہد کے فن پر قصیدہ گوئی کرتے آخر کا ر میرے دونوں بزرگ شوگر کی بیماری کے باعث مزید عوارض میں مبتلا ہوئے تو خواجہ انور سعید دل کے دورے اور چوہدری سعید اختر پیٹھ پر نکلے شوگر کے پھوڑے کی وجہ سے سروسز ہسپتال کی ایمرجنسی میں دوران علاج وفات پا گئے ۔دنیا بھر میں ہر سال 14نومبر یعنی آ ج کے دن ذیابیطس کا دن منایا جاتا ہے،۔اس دن کو پروفیسر فیڈرک گرانٹ کی یاد سے تعبیر دی جاتی ہے جنہوں نے انسولین کو دریافت کیا اور 14نومبر ان کی سالگرہ کا دن بھی ہے۔ذہابیطس سے بچائو کا عالمی دن ہر سال مختلف تھیم کے تحت منایا جاتا ہےاس سال 2024میں اس دن کو اس عزم کے ساتھ منایا جارہے کہ، “رکاوٹوں کو توڑنااورخلا کو ختم کرنا ہے “،جس کا مطلب ذیابیطس کے خطرات کو کم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہماری لگن پر زور دیتا ہے کہ ذیابیطس کی تشخیص کرنے والے ہر فرد کو منصفانہ، جامع، سستی، اور اعلیٰ معیار کے علاج اور دیکھ بھال تک رسائی حاصل ہو۔شوگر ایک ایسی بیماری ہے جو انسانی جسم کے ان افعال پر اثر انداز ہوتی ہے جو جسم کے اندر کاربوہائیڈریٹس (شکر)چکنائی اور لحمیات کے ہونے والے عوامل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ذیابیطس میں خاص طور پر انسولین کی مقدار میں کمی یا اس کی ساخت میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے خون میں گلو کوز کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ذیابیطس کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ٹائپ ون میں انسان کا لبلبہ یا تو بہت کم انسولین پیدا کرتا ہے یا بالکل ہی نہیں کرتااور یہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتی ہے لیکن یہ زیادہ تر بچپن اور نوجوانی کے دور میں ہوتی ہےاوراس لئے اس کا علاج صرف انسولین دینے سے ہی ہو سکتا ہے۔ٹائپ و ن ذیابیطس موروثی طور پر منتقل ہونے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اگر ماں کو ٹائپ ون ذ یابیطس ہو تو بچے کو بیماری ہونے کا خطرہ 3فیصد ہے جبکہ باپ کے بیمار ہونے پر بچے کو خطرہ چھ فیصد ہو جاتا ہے لیکن جڑواں بچوں کی صورت میں یہ خطرہ بڑھ کر 25سے 50فیصد ہو جاتا ہےمگر دس فیصد مریض ٹائپ ون کے ایسے ہوتے ہیں جن میں انسولین پیدا کرنے والے لبلبے کے خلیات کے خلاف اینٹی باڈیز نہیں ملتیں ،ایسے مریضوں کو ٹائپ ون بی کا مریض قرار دیا جاتا ہے۔ ذیابیطس کے کل مریضوں کا90فیصد ٹائپ ٹوکے زمرے میں آتا ہے، ان مریضوں کے خون میں انسولین کی کچھ مقدار تو پائی جاتی ہے لیکن یہ مقدار اتنی نہیں ہوتی کہ خون میں گلو کوز کو نارمل رکھنے میں کامیاب ہو سکے بعض اوقات انسولین انسانی جسم میں موجود گلو کوز کو استعمال کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے جس کو انسولین کی مزاحمت بھی کہا جاتا ہے۔جنیاتی اور ماحولیاتی دونوں عناصر مل کرلبلبے کے خلیات کی تباہی اور انسولین کی مزاحمت کا باعث بنتے ہیں۔ بیماری کی شروعات میں انسولین پیدا کرنے والے لبلبہ کے خلیات کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے فاقہ کے دوران (خالی پیٹ) انسولین کی مقدار بھی زیادہ ہو جاتی ہے جس سے خون کا گلوکوز لیول نارمل سے گر سکتا ہے اور بعض دفعہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسولین پیدا کرنے والے خلیات کی جگہ دوسرے ٹشوز بن جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ انسولین کی کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں پر اس مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ملکی آبادی کا قریبا 27فی صد یعنی 33ملین لوگ ذیابیطس کی کسی نہ کسی قسم کا شکار ہیںجبکہ دنیا بھر میں اس کی وجہ سے 537ملین لوگ کسی نہ جسمانی عوارض میں مبتلا ہیں ۔ ذیابیطس یعنی شوگر کی وجہ سے کون سے امراض لاحق ہوسکتے ہیں اس بارے میں صدر پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشنز ڈاکٹر طارق محمود میاں سے طویل گفتگو ہوئی جس میں ان کا کہنا تھا شوگر کو ام الامراض کہا جاتا ہے اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے طبی مسائل کا اثر جسم کے کسی بھی حصہ پر ہوسکتا ہے اگر دماغ کی بات کی جائے تو یہ فالج