شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ
0300-6668477
کئی برسوں کے بعد فیصل آباد کی سیاسی شخصیات رانا ثناءاللہ اور چوہدری شیر علی میں ملاقات ہوئی،بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ صلح کی ابتدا ہوئی،کافی عرصے سے دونوں نے ،ایک دوسرے کے لئے سیاسی چپقلش کے طور پر ایک دوسرے کیلئے اپنے دروازے بند کئے ہوئے تھے،لیکن برف پگھلی اور پہل کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ سابق وزیر داخلہ نےاعلی ظرفی کی عمدہ مثال قائم کی،اورچوہدری شیر علی کی تیمارداری کیلئےانکے گھر پہنچ گئے۔ جسے سیاسی اور سماجی حلقوں میں بہت پزیرائی ملی،راقم کوبھی اس صلح جوئی پر خوشی ہوئی، ابھی میں اس بارے لکھنے کا سوچ ہی رہا تھا،کہ سوشل میڈیا پر فیصل آباد کے سینئرصحافی میاں محمد شفیق نے اسی بات پر ایک تحریری کامینٹ اپنے فیس بک پیج پر کیا ہوا تھا۔جو عمدہ اورتحقیقی تھا،چنانچہ میں نے میاں شفیق صاحب کو میسج کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو آپکی لکھی ہوئی تحریر کو جوں کا توں میں اپنے کالم میں آپکے حوالے سے شامل کرلوں،تو انہوں نے نہ صرف اجازت دی،بلکہ کہا کہ موسٹ ویلکم۔۔۔،چنانچہ میاں شفیق صاحب کی حقیقت پسندانہ تحریر اعلی ظرفی کی عمدہ مثال کے عنوان سےجوں کی توں کچھ یوں ہے…,سیاسی و نظریاتی اختلاف اپنی جگہ مگر سابق وزیر داخلہ اور ممتاز لیگی راہنماء رانا ثناءاللہ خاں نے اپنے دیرینہ سیاسی حریف فیصل آباد کے بابائے سیاست سابق مئیر چوہدری شیرعلی جوکہ آج کل بستر علالت پر ہیں انکے گھر پہنچ کر انکی تیمارداری کرکے اعلی ظرفی اور بلند درجہ اخلاق کی ایک عظیم مثال قائم کی ہے، ہمیں بھی رانا ثناءاللہ سے سو اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان کے اس عمل سے ہماری طرح یقینا انکے بہت سارے مخالفین کے بھی دل خوش ہوئے ہونگے،چونکہ اس کی ایک وجہ ہے، کون نہیں جانتا کہ رانا ثناءاللہ اور چوہدری شیرعلی کے مابین سیاسی اختلاف صرف اختلاف ہی نہیں بلکہ یہ اختلاف ایک طرح سے ذاتی دشمنی کا رنگ اختیار کیے ہوئے تھا ہم نہیں کہتے کہ اس میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ، دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر شدید قسم کے الزامات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے چوہدری شیرعلی اپنے سیاسی و انتخابی جلسوں میں سٹیج پر کھڑے ہوکر رانا ثناءاللہ پر بطور وزیر درجن سے زائد انکے ساتھیوں (سیاسی ورکرز) کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کروانے کے الزامات لگاتے رہے ہیں، رانا ثنائاللہ بھی چوہدری شیرعلی پر کرپشن و دیگر الزامات عائد کرتے رہے ہیں ان دونوں رائنماؤں کے درمیان اختلافات اگرچہ نوے کی دہائی سے چلتے آ رہے ہیں لیکن ہر عام انتخابات کے موقع پر ان میں اس وقت شدت آجاتی جب ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل شروع ہوتا پہلے پہل تو ٹکٹوں کی تقسیم وقت چوہدری شیرعلی کی خوب چلتی رہی لیکن 2013ء کے انتخابات سے لیکر اب تک رانا ثناءاللہ نے فیصل آباد کی سیاست پر اپنی گرفت اس قدر مضبوط کرلی کہ انہوں نے چوہدری شیرعلی کی ایک نہ چلنے دی، لا محالہ اس پر چوہدری صاحب کا غصہ اور بھی بڑھ گیا اور وہ رانا صاحب پر جو الزام تراشی نجی محفلوں میں کیا کرتے تھے کھلے عام جلسوں میں کرنے لگے اور رانا ثناءاللہ کو شہباز شریف کے زیادہ قریب پاکر وہ کئی بار میاں نواز شریف پاس بھی شکایات اور گلوں شکوؤں کی ٹوکریاں بھر بھر کر لے جاتے رہے، بڑے میاں صاحب انکی ساری باتیں سن کر اور انکا غصہ ٹھنڈا کرکے تھاپی شاپی لگا کر واپس بھیج دیتے، جب کبھی چوہدری صاحب زیادہ غصہ دکھاتے تو بڑے میاں صاحب انکے سامنے شہباز شریف کو فون کال کرکے رانا ثناءاللہ کو سمجھانے کی تلقین کردیتے اپنے والد صاحب کی حمایت میں ایسا ہی کچھ چوہدری عابد شیرعلی بھی مریم نواز صاحبہ کے پاس جاکر کرتے مگر دونوں باپ بیٹے کی بات ایک بار بھی نہ بن پائی اسکی بنیادی وجہ رانا ثناءاللہ کی سیاسی حکمت عملی اور شہر میں انکی مضبوط چوہدراہٹ تھی، فیصل آباد کے ارکان اسمبلی ٹکٹ ھولڈرز اور عہدیداران بھی یہ باور کرچکے تھے کہ اب میاں صاحباں تک رسائی صرف رانا ثناءاللہ کے زریعے ہی ہے اور ترقیاتی فنڈز کا معاملہ ہو یا فیصل آباد کی انتطامیہ اور پولیس سے کاموں کا معاملہ ان سب کے لیے صرف ایک ہی نام ہے وہ ہے رانا ثناءاللہ ،،، یہ ہی وہ امر تھا جس نے چوہدری صاحب کی نیندیں اڑا رکھی تھیں انہیں نہ دن کو سکون تھا نہ رات کو نیند آتی تھی چونکہ جو سیاسی عروج رانا ثناءاللہ کے پاس تھا اس سے کہیں زیادہ چوہدری شیرعلی نے خود دیکھ رکھا تھا ،، ان دونوں میں سیاسی لڑائی یہاں تک آن پہنچی ہوئی تھی کہ خود میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے ختم نہیں ہو پا رہی تھی ایک بار نہیں دو بار نہیں درجنوں مرتبہ انہوں نے ان دونوں کے درمیان صلح کروائی لیکن بیل ایک بار بھی منڈے نہ چڑھی، دونوں میاں صاحبان نے انہیں کئی بار لاہور بلوا کر ایک دوسرے کے گلے لگایا پھر خود فیصل آباد آکر انکی جپھیاں ڈلوائیں لیکن نتیجہ صفر کا صفر،،ابھی صلح کی مبارکبادیں چل رہی ہوتی تھیں کہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی پھر سے شروع ہو جاتی ۔لڑتے لڑتے چوہدری صاحب بسترعلالت پر آ گئے ہیں اور رانا صاحب الیکشن ہار کر شہر کی چوہدراہٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تاہم اب دونوں کو اکٹھے دیکھ کر خوشی ہوئی ہے ،، پھر وہی بات کہ رانا ثناءاللہ نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چوہدری صاحب کی تیمارداری کا سوچا اور کچھ ساتھیوں کو لیکر کشمیر ہاؤس چوہدری صاحب کے بستر پر انکے پاس جا بیٹھے، طویل عرصہ بعد دونوں کو اکٹھے دیکھ کر اچھا لگا…,
میاں شفیق ایک قابل احترام صحافی ہیں جنہوں نے ہمیشہ حقیقت کی عکاسی کی ہے اور عوامی مفاد کے لئے کام کیا ہے۔ فیصل آباد کی دو سیاسی شخصیات کے درمیان صلح کے حوالے سے ان کا ردعمل نہ صرف پختہ تجزیے پر مبنی تھا، بلکہ انہوں نے اس موقع پر ایک مثبت پیغام بھی دیا۔ میاں شفیق نے اس اہم واقعہ کو سوشل میڈیا پر بڑے سلیقے سے پیش کیا، جس سے نہ صرف سیاسی ماحول