تحریر : فیصل زمان چشتی
جب سے ہوش سنبھالا ہے کچھ فقرات مسلسل سماعتوں سے ٹکراتے رہے کہ پاکستان اس وقت شدید ترین اندرونی و بیرونی خطرات اور بحرانوں کا شکار ہے. نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ معاشی چیلنجز درپیش ہیں۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ قوم قربانی دے۔ قوم نے حکمرانوں کی باتوں کو ہمیشہ سر آنکھوں پر رکھا اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اور اپنے خون پسینے کی کمائی سے ہرجگہ پر بلواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس دیا اور جان لیوا طلسماتی مہنگائی بھی برداشت کی اور اس کے بعد یہی سمجھا کہ ہم نے کٹھن وقت گزار لیا ہے اب بہتر وقت ہمارے بہت قریب ہے اب ہم ایسا دور دیکھیں گے جس میں ہمارا ملک اور عوام دونوں خوشحال ہوں گے۔ اس معصوم قوم نے معجزات کے انتظار میں اپنے پچھتر سے زائد قیمتی سال گنوا دیئے۔ اس قوم کو ہمیشہ اپنوں نے دھوکے دیئے لیکن یہ مایوس نہیں ہوئی اور ہردور میں اپنا مسیحا اور نجات دہندہ تلاش کرتی رہی۔
پہلے پہل تو اس کو حقائق کا کچھ زیادہ علم نہیں ہوتا تھا مگر اس سوشل میڈیائی دور میں اب کوئی چیز بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ۔ اب کرتوتوں پر پردے نہیں ڈالے جا سکتے۔ ہر شخص کا کچا چٹھا سکرین پر موجود ہے۔ کون کیا تھا کون کیسا ہے اور کیا کیا کچھ کرتا رہا ہے ایک کلک کے فاصلے پر موجود ہے۔ اس بات اور حقیقت کے ثبوت بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے اس لیے عوام کا انتخاب ہی مسند اقتدار کا اہل سمجھا جاتا ہے۔ عوام کس کو کیوں پسند اور کس کو کیوں نا پسند کرتے ہیں اس کے پیچھے وہ حقائق بولتے ہیں جو چھپانے سے نہیں چھپائے جاسکتے۔ کسی بھی ملک کی سلامتی اس کی اقتصادی خوشحالی اور ترقی سے مشروط ہے جو ملک اقتصادی اور معاشی طور پر جتنا مضبوط ہوگا دنیا میں اس کی حیثیت اور مقام اتنا ہی بڑا اور بلند ہوگا۔ پوری دنیا اسے اتنے ہی عزت و احترام سے دیکھے گی اور اس کی بات مانے گی۔ جس طرح پنجابی محاورے میں کہا جاتا ہے کہ ” جس دے گھر دانے اودے کملے وی سیانے ” کے مصداق دنیا میں اسی ملک کو معتبر اور معزز گردانا جانا ہے جس ملک کی جی۔ ڈی ۔ پی ۔ زیادہ ہو۔ آج کے دور میں اسی ملک کے پاسپورٹ کی عزت اور احترام ہے جو اقتصادی طور پر مستحکم بنیادوں پر قائم ہو۔ اس ضمن میں دنیا کے کئی ممالک کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ بےپناہ وسائل اور افرادی قوت کی بہتات کے باوجود ہم پچھلی پون صدی سے ٹریک پر چڑھ نہیں سکے اور ہمیشہ ٹیک آف کی پوزیشن سے گر کر رن وے تباہ ہوجاتے ہیں ۔ کیا یہ کسی کی سازش ہے یا ہمارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ کیا ہم کنفیوزڈ قوم ہیں کیا یہ کسی بین الاقوامی پلان کا حصہ ہے۔ ہر دفعہ ہم ہی پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں۔ کیا من حیث القوم ہم نے کبھی اپنا محاسبہ کیا۔ کیا ہم نے کبھی سمتوں کا تعین کیا۔ کیا صرف ہمارے حکمران طبقے میں ہی مسائل ہیں یا پوری قوم کا ہی قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کچھ بنیادی اور انتہائی اہم سوالات ہیں جن کا جواب ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں کے کیے کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بحرانوں کے ذمہ داران کا محاسبہ کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
ملک کے سسٹم اور مشینری کو چلانے کے لیے پارلیمنٹ ، عدلیہ اور بیورو کریسی اہم ستون ہیں اور سیکیورٹی ادارے ان کی مدد اور معاونت کرتے ہیں۔
بیوروکریسی میں ملک کے ذہین ترین افراد سخت ترین امتحان کے بعد منتخب کئے جاتے ہیں اور ان کی ٹریننگ میں ان کے ٹیلنٹ کو مزید نکھار کر سامنے لایا جاتا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ میں بھی ملک کے وہ ذمہ دار افراد منتخب ہوکر آتے ہیں جن کو عوام چاہتے ہیں اور ہر وقت عوام میں رہتے ہیں اور انہیں عوام کے مسائل کا ادراک بھی ہوتا ہے۔ تیسرا اور اہم ترین ستون عدلیہ ہے جس کے جج بھی سینئر ترین اور زیرک قانون دان ہوتے ہیں جن کی نظر سے کوئی مسئلہ چھپا نہیں ہوتا۔ وہ مسائل اور پیچیدگیوں کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سیکیورٹی اداروں کے سربراہان بھی بہترین پروفیشنلز ہوتے ہیں جن کی قابلیت کا ایک زمانہ معترف ہے اور یہ پوری دنیا میں اپنی خدمات سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ اپنی قابلیت اور بہادری سے ملک خداداد پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کرتے ہیں۔
اگر بغور دیکھا جائے کہ ہمارے ملک کو چلانے والی تمام ٹیمیں بہترین، ذہین ترین، پڑھے لکھے اور جہاندیدہ افراد مشتمل ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ قدم بڑھا کر آگے چلنے کی بجائے ترقی معکوس کررہے ہیں اور ہر آنے والا دن ہمیں آگے کی بجائے پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ ہم نے کہاں پہنچنا تھا اور کہاں پہنچ گئے ہیں۔
غربت، مہنگائی، لاقانونیت، افلاس اور ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور ہر طبقہ بےچینییوں اور محرومیوں میں گھر چکا ہے۔ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے ملک کو چلانے والے تمام ادارے بہترین اور اعلٰی پیشہ ورانہ قابلیت کے حامل افراد پر مشتمل ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ملک نہایت تیزی سے تنزلی کی راہوں پر گامزن ہے اور نت نئے بحرانوں کی دلدل میں پھنستا جارہا ہے۔ کیا اس ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم موجود ہے۔ اس کا جواب ہے کہ بالکل نہیں۔ اس تباہی کا کون ذمہ دار ہے۔ اس کا جواب سیدھا سادہ ہے کہ وہ افراد جن کے ہاتھ میں اس کی باگ ڈور ہے۔ جو دہائیوں سے اس کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ جو اختیار و اقتدار کے ساتھ ساتھ شاہانہ پروٹو کول بھی انجوائے کرتے ہیں۔ جن کی آمدنیوں اور اثاثوں کی ان کو بھی خبر نہیں کہ اندرون ملک