ڈیرے دار
سہیل بشیر منج
دو سال قبل ملائشیاء کے شہر کوالالمپور میں ایپل کمپنی نے ایک کثیر منزلہ عمارت کرائے پر لے لی اس کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا کئی فلورز پر ایپل نے اپنی مصنوعات کے بے شمار سٹال لگائے دکانوں کو خوبصورت روشنیوں سے سجایا گیا ساری بلڈنگ پر بے پناہ سرمایہ خرچ کر کے ایپل کی برینڈنگ کی گئی اس مال کی افتتاحی تقریب کی ہر طرح سے تشہیر کی گئی جب افتتاح ہوا تو ایک ہی دن میں ایپل کمپنی کی کروڑوں روپے کی مصنوعات فروخت ہو گئیں
جب سا مسنگ کمپنی کی مارکیٹنگ ٹیم نے عام خریدداروں کے روپ میں اس مال کا دورہ کیا تو انہوں نے اپنی کمپنی کے لیے خطرے کی گھنٹی محسوس کی سامسنگ کے سی ای او ایڈورڈ حان بہت تجربہ کار انسان تھا وہ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بڑے عہدوں پر فائض رہ چکا تھا اس نے اپنی سیلز ٹیم کی میٹنگ بلائی اپنے افسران سے ایپل کی اس کاروائی کا توڑ پوچھا ہر کسی نے اپنے اپنے تجربے کی بنیاد پر مختلف جوابات دیے لیکن کسی کا جواب بھی اسے مطمئن نہ کر سکا تو اس نے میٹنگ غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی دوسرے ہی دن اس نے سی ای او کے ایل ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم سے ملاقات کی اور اس مال کے سامنے والے میٹرو اسٹیشن کے تمام حقوق ایک سال کے لیے خرید لیے اس نے دوسرے ہی دن ایڈورٹائزنگ ایجنسیز ہائر کیں اور اس میٹرو اسٹیشن کو سامسنگ گلیکسی اسٹیشن کے نام سے منسوب کر کے سارے اسٹیشن ،شیشوں راہداریوں دیواروں ایکسلیٹرز ،لفٹوں حتی کہ جہاں کہیں بھی جگہ میسر آئی سامسنگ کے اشتہارات سے بھر دیا اور اس کے نتیجے کا انتظار کرنے لگا اس کی اس پلاننگ نے سامسنگ کمپنی کی کایا ہی پلٹ دی ایک ہفتہ ہی گزرا ہوگا کہ اس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ایپل مال کی طرف جانے والے زیادہ تر خریدار اسی میٹرو اسٹیشن پر اترتے سارے اسٹیشن راہداریوں ایکسیلیٹر لفٹ سیڑھیوں پرسامسنگ کی برینڈنگ دیکھتے اور اسٹیشن سے باہر آنے تک تذبذب کی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں اور زیادہ تعداد میں ایپل کی بجائے سامسنگ کی مصنوعات خرید کر واپس چلے جاتے
یہ ساری کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ گزشتہ روز مجھے کچھ چیزوں کی خریداری کے لیے ہال روڈ جانا تھا میں نے اپنی کار علی ٹاؤن اسٹیشن پر پارک کی اور خود میٹرو ٹرین پر سوار ہو کر ہال روڈ چلا گیا علی ٹاؤن اسٹیشنز اور راستے میں آنے والے تمام اسٹیشنز کا باغور مطالعہ کیا تمام اسٹیشن صاف ستھرے تو تھے لیکن اس قدر نہیں جتنے ہونے چاہیں تھے تو ذہن میں ملایشیاء، والے میٹرو اسٹیشن آ گئے
جناب وزیر اعلی ہمارے پاس اورنج لائن ٹرین کے ا ٹھائیس ایک طرف ا ٹھائیس دوسری طرف یعنی کل ملا کر چھپن اسٹیشن بنتے ہیں اگر ہم بھی مختلف ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کو اسٹیشنوں پر اپنی برانڈنگ کے حقوق فروخت کر دیں تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری ٹرینوں کے ڈرائیوروں اور اسٹیشن عملے کی تنخواہوں کا ایک بڑا حصہ انہی کمپنیوں سے کمایا جا سکتا ہے ہمارے ملک میں سامسنگ ،ایپل ٹیکنو، اوپو، ویوو سمیت بہت سی موبائل کمپنیاں موجود ہیں اس کے علاوہ فریج، اے سی بنانے والی کمپنیاں، پینٹ ،جوتے، پرفیوم، گاڑیاں، ٹرانسپورٹ اس کے ساتھ بے شمار کمپنیاں موجود ہیں ان سٹیشنوں کے حقوق ایک سال کے لیے بولی لگا کر فروخت کر دیے جائیں اگر ایک اسٹیشن سال کے لیے ایک کروڑ روپے میں بھی آؤٹ سورس کر دیا جائے تو بغیر کچھ خرچ کیے سالانہ چھپن کروڑ کمائے جا سکتے ہیں اور جو کمپنیاں بروقت ادائیگی کر دیں اگلے سال انہی کے ایگریمنٹس کو رینیو کر دیا جائے اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ جس برینڈ کو اسٹیشن لیز پر دیا جائے اس کی صفائی اور بجلی کا انتظام بھی اسی کمپنی کا سپرد کر دیا جائے اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جائے تو اگلی بولی ٹرینوں پر اشتہاری مہم کے لیے لیز پر دیے جانے کے لیے کی جائے یوں ہم صرف اورنج لائن ٹرین سے بغیر کسی انویسٹمنٹ کے تقریبا ایک سے ڈیڑھ ارب روپے سالانہ کما سکتے ہیں اسی طرح میٹرو بسوں اور اسٹیشنوں کو آؤٹ سورس کیا جائے اور اس سے حکومتی خزانے میں بڑا اضافہ کیا جا سکتا ہے تیسرے مرحلے میں سپیڈو بسوں اور اس کے علاوہ شہر میں چلنے والی تمام سرکاری بسوں کو مختلف برینڈز کولیز پر دے دیا جائے
تھائی لینڈ کے شہر بینکاک میں چلنے والی تمام سرکاری بسوں کو ایسے ہی ہر سال ایک بولی کے تحت مختلف کمپنیوں کو لیز پر دے دیا جاتا ہے جس سے تھائی لینڈ گورنمنٹ ایک بڑا منافع کماتی ہے اور اسی رقم کو نئی بسوں کی خریداری پر خرچ کر کے نئے روٹس چلا دیتی ہے اس کے علاوہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک جن میں سنگاپور، چین، ہانگ کانگ،تائیوان ،اسٹریلیا، امریکہ ،برطانیہ ،کینیڈا سمیت بہت سے دوسرے ممالک میں اپنی ٹرانسپورٹ کو تشہیر کے لیے لیز پر دے دیا جاتا ہے اگر وہ تمام ممالک اس سے مفت میں اتنا پیسہ کما سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں
محترمہ وزیراعلی اگر اسی طرح حکومت پنجاب پہلے سے موجود اور نئے روٹس پر چلنے والی بسوں کو مختلف کمپنیز کو کرایہ پر دے دے تو اس سے مزید بسیں بھی خریدی جا سکتی ہیں اور نئے روٹس بھی چلائے جا سکتے ہیں اگر آ پ کو میری تجویز قابل عمل لگے تو اپنے وزیر ٹرانسپورٹ سے اگلی میٹنگ میں اس پر بات ضرور کریے گا