اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی

تحریر: خالد غورغشتی

صاحبان گرامی قدر کیا آپ نے کبھی غور وتربر کیا کہ اللہ نے ہمیں کن کن عظیم بدنی نعمتوں اور خزانوں سے نواز رکھا ہے اور ہم اپنی پوشیدہ عظیم قوتوں کو پہچاننے سے عمر بھر کیوں قاصر رہتے ہیں؟ ہمارے اندر کیا کیا صلاحتیں ہیں اور ہم اُنھیں کہاں کہاں استعمال کر سکتے ہیں؟ بے شک انسان تو رہے انسان کارخانہ ء قدرت میں کوئی بھی چیز بے کار تخلیق نہیں کی گئی۔ کائنات کی ہر ایک شے اپنی صلاحیتوں کو جانچ کر کہیں ہوا میں اُڑ رہی ہے، کہیں زمین کے اوپر رینگ رہی ہے۔ اصل موضوع کی طرف آنے سے قبل یہاں یہ بات کہنا ضروری سمجھوں گا کہ ایک روایت میں کہ انسان صبح جب بیداری کرتا ہے تو جسم کا ایک ایک حصہ زبان سے التجا کرتا ہے کہ ہمارے حق میں بہتر رہنا غلطی تم کروں گی، سزائیں ہم بھگتیں گے۔

یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم ساری عمر دل و دماغ کا رشتہ ہی ایک جگہ اکھٹا نہیں کر پاتے اور کبھی دل کی سُنتے، کبھی ذہن میں آنے والے تخیلات پر چل کر ایسی ڈگر پہ چل پڑے جہاں سے رسوائی ہمارا مقدر بن جاتی ہے۔

ہم لوگوں کی سُنتے ہیں، ان کی مانتے ہیں ،ان کے قول کو دُہراتے ہیں ان کے کہنے کے مطابق چلتے ہیں اور ان کے کہنے کے مطابق ہی زندگی کے اوقات بسر کرتے ہیں۔ دراصل ہمیں بڑوں نے سیکھایا ہوتا ہے کہ جیسا ماحول ہو ویسے چلنا چاہیے۔ قرآن کو ترجمے سمیت پڑھا تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ اپنے من مانی کرو گے تو کہیں کے نہ رہو گے۔ہماری بہت سی پریشانیوں کا آغاز ہی یہیں سے ہوتا ہے کہ ہم خود پر دوسروں کے عوامل مسلط کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم بہت سے مسائل کا شکار ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ دل کے ارمان تو آنسوؤں میں بہہ گئے۔

میں کوئی فلاسفر نہیں لیکن جہاں تک میری عقل نے گھوڑے دوڑائے ہیں کہ ہم اکثر دل و دماغ میں ہم آہنگی پیدا نہ ہونے کے باعث اُلجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے حضرات علما نے فرمایا کہ سب سے بڑا مفتی انسان کا دل ہے؛ یہ خود ہر بات بتا دیتا ہے کہ ہم غلط کر رہے ہیں یا درست؟

جب ہم ہر بات دوسروں کے دیکھا دیکھی کرتے ہیں، مضمون، کالمز، افسانے، ناول اور پوری پوری کتابیں کاپی پیسٹ کرتے ہیں، دوسروں کے گھریلو، تجارتی سامان، کپڑے، جوتے اور گھڑی تک کی نقالی کرتے ہیں تو ہمیں کہاں سے شعور آئے گا؟اِسی بے شعوری اور موازنے سے ہماری تنزلی کا آغاز ہوتا ہے، ہم کوٹھیوں، گاڑیوں اور کتابوں کے مصنف تو بن جاتے ہیں لیکن دل کے اندر بیٹھا مفتی ہمیشہ ہمیں مضطرب کیے رکھتا ہے کہ ہم خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
ہمارے بڑے حضرت جی فرمایا کرتے تھے بیٹا جب تک ہم دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے اپنی صلاحیتیوں کا ضیاع اور مُسرتوں کو اندر ہی اندر سے مسمار کرتے رہیں گے۔

گزشتہ دنوں مجھے ایک صاحب نے کہا باقی تو سب ٹھیک بھیا مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ ہر وقت ہی کیوں ہنستے مُسکراتے رہتے ہیں؟ اور مغموم ترین موضوعات پر آپ کے مضامین ہوتے ہیں، آپ کے دانت نکالتے مُسکراتی ہوئی تصویر قطعی نہیں بھاتی اس کو تبدیل کرو۔ میں نے کہا جناب زندگی میں اتنی سانسیں نہیں لیں، جتنا مجھے ہسنی آتی ہے، مجھے تو اتنا یقین ہو چلا ہے کہ ہنستے مسکراتے میری روح قبض کر لی جائے گی۔

یہ جو ہم ہر وقت خواہ مخواہ ہزاروں من کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں اس کا علاج کرنا ہوگا۔ اگر ہمارا دل مضطرب ہے تو لازمی سی بات ہے کہ دماغ بھی بوجھل رہے گا۔ اقبال نے تو بہت پہلے مُردہ دل کو زندہ کرنے کی تلقین کی تھی، آج اسی فلسفے کو جھاڑنے کی ضرورت ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنے دل و دماغ کو اردگرد کے تخلیلات سے اس قدر بوجھل کر دیتے ہیں کہ دوسروں کے معاملات کے سوا اپنے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتے۔ ہم ہر وقت انھی چکروں میں رہتے ہیں کہ فلاں نے یہ کردیا، فلاں نے وہ کردیا۔ کاش ہم کبھی اپنے من میں بھی جھانکنے کی کوشش کرتے کہ ہمارا بوجھل وجود ہم سے کیا کیا روزانہ تقاضہ کرتا ہے۔ اسی کی غمازی کیا خوب حضرت اقبال کر گئے:

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

جب ہم اپنے من کو حرام کاری اور گناہوں سے آلودہ کرتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ پر نفرتوں، بغض، کینے، حسد اور گالی گلوچ کے زنگ لگنا شروع ہوجاتے ہیں، گناہ ہم کرتے ہیں، گالیاں اولاد اور گھر والوں کو دیتے ہیں، نفرت ہم کرتے ہیں غیبتیں رشتے داروں، محلے داروں اور دوستوں کی کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ جانے ہم اپنے گناہوں کی سزائیں دوسروں کو کیوں دیتے ہیں؟ ہمیں اپنے من کو اُجلا کرنے کے لیے خود کو پہلے گناہوں سے خود کو بچانا ہو گا۔

ہمارے دل و دماغ کے اندر جو قیمتی ہیرے جواہرات کے خزانے اور محلات اللہ نے تعمیر کیے ہیں، کاش ہم ان کو سمجھ لیتے تو ہم کتنے اعلی منصب پر فائز ہوتے۔ ایک روایت میں جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، گویا اس نے حق تعالی کو پہچان لیا۔ کاش ہم اپنے آپ کو پہچاننے کے اپنے دل کے اندر بھی جھانکتے؟ ہمارا وجود کتنا معتبر ہے کہ اللہ ہمارے دلوں میں بسا کرتا ہے بلکہ اس سے بڑی اور کیا سعادت ہو گی کہ جس امت میں پیدا ہونے کے لیے نبیوں نے دعائیں کیں، اللہ نے اس خوش قسمت نبی کی امت میں ہمیں پیدا کیا۔ ہم تو ساری زندگی اس بات کا احسان اتارنا چاہیں، نہیں اتار سکتے اور ہم امت محمدی کے اندر دن رات نفرتیں، کدورتیں اور چپقلشیں پیدا کرکے کون سی خدمت دین اور سماج کر رہے ہیں۔ آج ہم سب کو اپنے اپنے گریبانوں کے اندر جھانک کر دیکھنے کی

Comments (0)
Add Comment