احساس کے انداز
تحریر؛۔ جاویدایازخان
ریل گاڑی برصغیر میں انگریزوں کا سب سے بڑا کارنامہ شمار ہوتا ہے ۔اسی لیے کہتے ہیں کہ ہندوستان کو فوج نے نہیں ریل نے فتح کیا تھا ۔انگریز کو ایک سو اکہتر سال قبل اپنی افواج کی نقل وحرکت کے لیے ٹرین کا خیال آیا اس وقت آمد ورفت کا کوئی اور تیز رفتار ذریعہ نہ تھا ۔لیکن ٹرین نے چند عشروں کے اندر انسانوں کے رہن سہن ،کھانے پینے ،اوڑھنے پہننے ،نوکری یا کاروبار یہاں تک کہ سوچنے کے انداز کو بھی بدل ڈالا ۔لیکن پاکستان میں یہ نظام آج ٹوٹ پھوٹ اور زوال کی دکھ بھری داستان بن چکا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں بے تحاشا پھیلنے والا یہ نظام پاکستان میں کیوں سکڑ رہا ہے ؟ کہتے ہیں کہ جب پاکستان وجود میں آیا تو ریلو ے کے روٹ پانچ ہزار سنتالیس میل ہوا کرتے تھے جو اب گھٹ کر چار ہزار اٹھ سو میل رہ گئے ہیں ۔بہت سی ریلوے لائنز اکھاڑی جاچکی ہیں اور ان پر تعمیرشدہ ریلوے اسٹیشن کھنڈروں میں بدل چکے ہیں ۔ہمارے علاقے میں خان پور جنکشن سے چاچڑاں شریف کی طرف جانے والا ٹریک اب ماضی کا حصہ بن گیا ہے ۔اس ٹریک پر قائم پرانا ریلوے اسٹیشن اب شاید لوگوں کے ذاتی استعمال میں جا چکا ہے ۔ چاروں صوبوں میں کئی برانچ لائینیں بھی ختم یا بند کی جاچکی ہیں ۔یہ پٹریاں غائب ہو کر کہاں گئیں کسی کو معلوم نہیں ہے ؟ کہتے ہیں کہ ایک ریلوے لائن غازی گھاٹ اور محمود کوٹ کے درمیان ہوا کرتی تھی جس کے آثار قصبہ گجرات میں بھی دکھائی دیتے تھے ۔بہت پہلے قصبہ گجرات ریلوے اسٹیشن کی بلڈنگ میں یونیں کونسل کا دفتر بنا دیا گیا تھا ۔سوال یہ ہے کہ یہ ریلوے ٹریک جب اجڑتے ہیں تو ان کا سامان کہاں چلا جاتا ہے ؟ پھر ریلوے کی بلڈنگز اور قیمتی زمین کا کیا بنتا ہے ؟ آج بھی ناجانے کتنے ہی ریلوے اسٹیشن اجڑ کر کھنڈر بن چکے ہیں ۔لوگ ان کی اینٹیں تک اکھاڑ کر لے جاچکے ہیں ۔یہ کھنڈر اب نشہ کرنے والوں کا ٹھکانہ نظر آتے ہیں ۔کیا کبھی کسی نے اس بارے میں بھی سوچا ہے ؟ ریلوے اور اس کے سفر کا رومانس آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے اور وہ بڑی حسرت سے ان کی بربادی کو دیکھ کر رنجیدہ ہو جاتے ہیں ۔وہ ایک بار پھر ان ٹریک پر ریلوے کی رونق بحال دیکھنا چاہتے ہیں ۔کیا اس پر توجہ دی جا سکے گی ؟ بظاہر ممکن نظر نہیں آتا ۔البتہ اب سی پیک کے تحت برادر ملک چین کے تعاون سےپشاور سے کراچی تک ایک نیا اور تیز ترین ٹریک بنانے کی باتیں حوصلہ افزا ضرور ہیں ۔جو شاید ریل کے رومانس کو پھر سے بحال کردۓ ۔
مجھے ساٹھ کی دھائی میں اکثر اپنے دادا جان کے پاس کوٹ ادو جانا پڑتا تھا ۔اس زمانے میں پہلے ڈیرہ نواب صاحب سے احمدپور شرقیہ پھر وہاں سے اوچ شریف اور پھر اوچ شریف سے علی پور کے راستے مظفرگڑھ پہنچتے تھے اور پھر وہاں سے کوٹ ادو کی بس ملتی تھی یوں ہم صبح اذان کے بعد سفر کا آغاز کرتے تو مغرب تک بمشکل منزل تک پہنچ پاتے۔پھر شادی بھی کوٹ ادو ہوئی تو یہ چکر اور زیادہ لگنے لگے ۔اتفاقا” بنک ملازمت بھی اوچشریف میں ہو گئی تو روزآنہ اوچشریف آنا جانا رہتا تھا ۔احمد پورشرقیہ سے علی پور تک ایک ٹوٹی پھوٹی سنگل سڑک ہوا کرتی تھی اور اس سڑک کے ساتھ ساتھ ایک ریلوے لائن ہوا کرتی تھی ۔کہتے ہیں کہ جب ہیڈ پنجند کی تعمیر ہوئی تو ڈیرہ نواب صاحب سے ہیڈ پنجند تک ایک خطیر رقم سے یہ ریلوے لائن تعمیر کی گئی تاکہ ہیوی مشینری اور سامان ہیڈ پنجند تک پہنچایا جاسکے ۔ اور رابطہ بحال رکھنے کے لیے اس ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون کے پول اور تاریں بھی لگی ہوئی تھیں ۔گو میں نے زندگی میں اس ریلوے لائن پر کبھی ٹرین چلتے ہوۓ تو نہیں دیکھی لیکن بزرگ بتاتے تھے کہ کبھی یہاں سے گڈز ٹرین گزرتی تھی ۔ہم نے ہیڈ پنجند تک اس ریلوے لائن کو دیکھا ہے اور ساٹھ کی دھائی تک ایک آدھا مزدورں کےذریعے کھنچنے والا ٹھیلا بھی دکھائی دیا تھا ۔اس زمانے میں یہ افوا ہ بھی گردش کر رہی تھی کہ یہ ریلوے لائن ہیڈ پنجند کراس کرکے بذریعہ علی پور مظفر گڑھ تک لے جانے کا منصوبہ ہے تاکہ اس علاقے کو بھی ریلوے کی سہولت مل سکے ۔ایسی ہی ایک ریلوۓ لائن جو تعمیری سامان کے لیے کوٹ ادو سے ہیڈ تونسہ تک جاتی تھی اسے بھی ہیڈ تونسہ کراس کراکر ڈیرہ غازی خان اور کشمور کے راستے کراچی اور بلوچستان سے ملا دیا گیا ہے ۔اس لیے توقع کی جارہی تھی کہ یہ لائن بھی مکمل کر لی جاۓ گی جو بدقسمتی سے آج تک افوا ہ ہی رہی ۔یہ تقریبا” پنتالیس کلو میڑ لمبی ریلوے لائن تھی ۔جب بھی ہم اسے دیکھتے تو امید بن جاتی کہ کبھی نہ کبھی یہ ریلوے لائن ضرور مظفرگڑھ تک مکمل ہوگی ۔مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا اس ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ لگے ٹیلی فون تار غائب ہونا شروع ہو گئے جب میں اسی کی دھائی میں یہاں سے گزرتا تو ہر مرتبہ تاریں غائب ہوتی جاتی تھیں ۔کہا جاتا ہے کہ یہ تاریں چوری ہونے لگی تھیں اور رفتہ رفتہ صرف لوہے کے پول ہی کھڑے نظر آتے تھے ۔ان تاروں ،پولز ،نٹ بولٹ اور پلیٹس کی چوری کے واقعات اخبارات میں پڑھنے کو ملتے رہے شور مچتا ، لوگ پکڑے جاتے ،برآمدگی بھی ہو جاتی مگر پھر پراسرار خاموشی چھا جاتی تھی ۔جب میں دوبارہ نوے کی دھائی میں اوچشریف تعینات ہوا تو ریلوے لائن بھی کئی جگہ سے غائب نظر آئی لیکن کچھ نہ کچھ موجود ضرور تھی ۔دیکھتے ہی دیکھتے ڈیرہ نواب صاحب سے ہیڈ پنجند تک کی یہ ریلوے لائن ایسے غائب ہوئی جیسے یہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔کہتے ہیں کہ یہ ریلوے لائن اور کھمبوں سمیت سب کچھ کسی کو نیلام کردیا گیا ۔اب آنے والی نسل کو تو یہ پتہ بھی نہیں ہوگا کہ یہاں ریلوے لائن ہوتی بھی تھی ؟ سوال یہ ہے کہ یہ قیمتی ریلوے کی ٹیلی فون کی تاریں ،پول اور لائن نیلام ہو گئیں لیکن جس وسیع زمین سےیہ لائن اکھاڑی گئی ہے وہ قیمتی زمین کیا ہوئی ؟ ان لائنز پر موجود ریلوے اسٹیشن ،ان کی بلڈنگز اور دیگر سامان جو تاریخی اور قومی اثاثہ تھا اس کا کیا بنا ؟ میں نے بہت سے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا لیکن کبھی کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا ۔ وہ قیمتی زمین جس پر یہ ریلوے ٹریک رواں دواں تھا اور یہ بلڈنگز بنی ہوئی تھیں ان کا کیا بنا ؟ بعض مقامات جہاں یہ ریلوے ٹریک ہوتا تھا اب وہاں چند مقامات پر کچھ فصلیں کاشت دکھائی دیتی ہیں باقی ساری زمین بےکار پڑی ہے ۔کیا انہیں فروخت یا لیز پر دے دیا گیا ہے ؟ اگر نہیں دیا گیا تو یقینا” انہیں لیز پر دینا چاہیے یا پھر نیلام کر کے ریلوے کا خسارہ کم کیا جانا چاہیے ۔ریلوے کے کئی اور ٹریک بھی بند ہو چکے ہیں ۔سمہ سٹہ کا مصروف ترین اسٹیشن بھی ویرانی کا شکار ہے ۔اسی طرح بہاولنگر ٹریک کے بھی بےشمار ریلوے اسٹیشن ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں ۔مگر ان قیمتی قومی اثاثے کو بچانے کی کوئی کوشش سامنے نہیں آتی ۔ریلوے کے بےشمار رقبے یا تو خالی اور تباہ وبرباد پڑے ہیں یا پھر لوگوں نے قبضے جما لیے ہیں ۔سمہ سٹہ سے بہاولنگر ریلوے لائن بھی تقریبا” بند ہو چکی ہے اور اس پر موجود ریلوے اسٹیشن ویران پڑے ہیں ۔ڈیرہ نواب صاحب ریلوے اسٹیشن پر نواب آف بہاولپور کا تعمیر شدہ قدیمی سیلون ہوا کرتا تھا ۔اس عالیٰ شان بلڈنگ کے ارد گر ایک خوبصورت پھلواری اور باغیچہ ہوا کرتا تھا جو اب ایک کھنڈر بن چکا ہے اور اس کی اینٹیں تک چوری ہو چکی ہیں ۔اسی طرح کا ایک شاہی سیلون بہاولپور ریلوے اسٹیشن پر بھی موجود ہے اور ویرانی کا شکار دکھائی دیتا ہے ۔ایک جانب ریلوے کا بھاری بھر کم خسارہ دکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب ریلوے کے ان قیمتی اثاثوں پر حکومتی توجہ نظر نہیں آتی ۔ریلوے کا یہ نظام بڑی کثیر رقم اور محنت سے ایک لمبے عرصے میں بنا تھا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی بھی طرح اس قومی اثاثے کو بچایا جاۓ اور حفاظت کی جاۓ ۔اس قومی سرمایہ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے سر جوڑنے کی ضرورت ہے ورنہ اس کے بھی اوچ شریف ریلوے لائن کی طرح غائب ہونے کا اندیشہ موجود ہے ۔کیا یہ اثاثے فروخت کرکے یا لیز پر دۓ کر اس قوم پر سے قرض کا بوجھ کچھ کم نہیں کیا جاسکتا ؟ کیا ان کے ذریعے ریلوے کا خسارہ پورا نہیں کیا جاسکتا ؟ کیا ان وسیع قیمتی زمینوں پر پبلک کے لیے خوبصورت پارکس اور مار کیٹیں نہیں بنائی جاسکتیں ؟ یہ سوال یقینا” سوچنے کی ضرورت ہے ۔