منشا قاضی
حسب منشا
بے غرض لوگ بے پناہ ہوتے ہیں ان کو کسی کی پناہ کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اللہ کی پناہ میں ہوتے ہیں انہیں دنیا کی کوئی قوت اپنی شان و شوکت سے مرعوب نہیں کر سکتی ۔ عصر حاضر میں اپ کوئی مجھے ایسی شخصیت چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈ کر لا دیں تو مجھے بے پناہ قلبی اور روحانی اطمینان ہوگا میں ممنون احسان ہوں اپنے جواں سال قائد جناب نواز کھرل کا جن کی بے بدل نقابت کے سامنے بڑے بڑے خطیبوں کی خطابت دم توڑ دیتی ہے ۔ کھرل صاحب جب محبت بھری یاددہانی کراتے ہیں تو ادمی مجبور ہو جاتا ہے کہ اس تقریب میں شرکت کے لیے اور پھر جب یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک ایسے مرد قلندر تشریف لا رہے ہیں جو المصطفی کے سرپرست اعلی سابق وفاقی وزیر الحاج ڈاکٹر محمد حنیف طیب روشنیوں کے شہر کراچی سے تشریف لا رہے ہیں تو پھر ان کی زیارت لازمی ہو جاتی ہے نواز کھرل صاحب نے مختصر نشست کا حصہ بننے کے لیے بلایا تھا مہمان خاص کی فلائٹ ڈھائی گھنٹے تاخیر سے پہنچی تھی اور اپ اول سے اخر تک تاخیر کی معذرت کرتے رہے اور یہ ان کا بڑا پن تھا نواز کھرل حفظ مراتب کے ادمی ہیں اور وہ حاضرین و سامعین کو بھی وہی پذیرائی دیتے ہیں جو مہمان خاص کو دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی علمی شخصیات رحیم یار خان سے لے کر اسلام اباد تک کھینچی چلی اتی ہیں اور یہ کمال صرف جناب نواز کھرل کی بے بدل شخصیت کا رہین منت ہے کھرل صاحب نہ تو سوز سے بیگانہ ہیں اور نہ ہی وہ اپنے پروانوں کو اس لذت سے بیگانہ رکھتے ہیں ۔ الحاج ڈاکٹر محمد حنیف طیب کے دیوانے دیوانہ وار جوق در جوق تشریف لائے اور اول سے لے کر اخر تک اپنی نشستوں پر اطمینان افروز ماحول میں موجود رہے ۔ کھرل صاحب کی نقابت اور محترمہ نصرت سلیم کی بصیرت افروز گفتگو کی جستجو میں حاضرین کی ارزو جاگ اٹھی ۔ محترمہ نصرت سلیم کا خطبہ استقبالیہ کیا تھا ؟ ایک خوبصورت پیغام تھا اور اپنے قائد کا وہ ارادت و عقیدت کے چراغوں کی روشنی کی لو میں خیر مقدم کر رہی تھیں ۔ عربی زبان میں افتاب مونث ہے اور مہتاب مذکر ہے اس لیے تذکیر و تانیث کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کا کام بولتا ہے نصرت سلیم کا کام بول رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہ جس مقام پر فائز ہے وہ اپنے قابل رشک کارناموں کی بدولت خوش نظری اور احترام کی سزاوار ہیں ۔ نقیب محفل محترم نواز کھرل کا حافظہ اگر مل جائے تو میں تمام سامعین کے نام اپ نے کالم میں لکھوں حقیقت یہ ہے کہ کرونا نے میرا حافظہ بڑا خراب کر دیا ہے وگرنہ سب کے نام لکھتا ۔ مرزا ندیم بیگ سے بڑے عرصے کے بعد ملاقات ہوئی اور ان کو دیکھ کر یہ حقیقت ہے غالب یاد اتا ہے ذوق کو پھر میں بھول جاتا ہوں۔
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
اسی طرح جناب فہیم علوی صاحب معین علوی صاحب ہمارے راؤ محمد اسلم خان ملک شہباز اور فنون لطیفہ کے شہزادے شہزادہ ذوالقرنین حیدر شاہ کی دورس نگاہ کا تو میں معترف ہوں وہ بڑی باغ و بہار طبیعت کے انسان ہیں اور جی چاہتا ہے کہ انسان ان سے مل کر زندگی کی رمق پیدا کر لے ۔ کھرل صاحب گلفشانی گفتار میں مصروف تھے اور اپ نے الحاج ڈاکٹر محمد حنیف طیب صاحب سے عقیدت سے خطاب کی استدعا کی اور مائیک ان کے سامنے میز پر رکھ دیا تو پورا ماحول نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا۔ ہم نے تو الحاج ڈاکٹر محمد حنیف طیب کو اکثر کوہستانی وقار کی طرح خاموش دیکھا تھا لیکن اج کھرل صاحب نے جب ان کو دعوت خطاب دی تو انہوں نے ماضی کی یادوں کو تازہ کر دیا اور غالب کے اس شعر کو جس میں غالب نے ماضی کو عذاب کہا تھا لیکن اج یوں محسوس ہوتا تھا کہ
یاد ماضی ثواب ہے یا رب
نہ چھین مجھ سے حافظہ میرا
الحاج ڈاکٹر محمد حنیف طیب صاحب کا حافظہ بلا کا حافظہ اور ایک بات انہیں ازبر تھی انہوں نے ملٹری سیکرٹری برگیڈیئر سعید اختر کا نام لیا برگیڈیئر شبیر کا نام بھی انہیں یاد تھا اور بہت سارے واقعات جو ضیاء الحق کے دور وزارت میں ہوئے اپ کو یاد تھے ۔ وقت کی تنگ دامانی کے باوجود جی چاہتا تھا کہ اپ بولتے جائیں اور ہم سنتے جائیں . جناب نواز کھرل نے صحیح بات کہی ہے کہ المصطفی کا کام پہاڑ جتنا ہے لیکن اس کی پبلسٹی ذرے جتنی بھی ہم نہیں کرتے سینہ در سینہ یہ غزہ تک ہمارا کام جا رہا ہے ہم دیکھ رہے ہیں ۔ لندن میں ہمارے چئیرمین جناب عبدالرزاق ساجد کی کارکردگی کا گراف اوج ثریا کو چھو رہا ہے اقوام متحدہ اور دوسرے مغرب کے ادارے اور خاص طور پر ہلال احمر تسلیم کرتے ہیں کہ فلسطین کے مجبور مظلوم مسلمانوں کی معاونت المصطفی کے میر کارواں الحاج ڈاکٹر محمد حنیف طیب کی قیادت اور چیئرمین عبدالرزاق ساجد کی معیت میں مسلسل ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ جنگ و جدل کے اس ماحول میں بھی جاری و ساری ہے الحاج محمد حنیف طیب صاحب سے مل کر راقم نے بتایا کہ رحمن فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر وقار احمد نیاز بھی خیر اور بھلائی کے کاموں میں سبقت لے جاتے ہیں اور اپ نے تائید کی اور بتایا کہ کراچی سینٹر میں ڈاکٹر عبد القدیر کے ساتھ میں نے وزٹ کیا تھا یہ بات راؤ محمد اسلم خان سن رہے تھے اور وہ بہت خوش ہوئے کہ میں رحمن فاؤنڈیشن نہیں بھول سکتا ۔ مرزا ندیم بیگ مل والے بھی ہیں اور دل والے بھی 10 کلومیٹر کا سفر ان کی کار میں بیٹھ کر کیا جس کی اگلی سیٹ پر میر کارواں الحاج ڈاکٹر محمد حنیف طیب تشریف فرما تھے اور میں ان کے سعادت