تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
پندرہ صفحات پر مشتمل چھبیسویں آئینی ترمیم بل گزٹ کاپی کے صفحہ نمبر تین تا چودہ کے بغور مطالعہ اس نتیجہ پر باآسانی پہنچا جاسکتا ہے کہ درحقیقت اس ترمیم کا مقصد آئین پاکستان کے ساتویں حصہ یعنی آرٹیکل 175تا 212 عدلیہ کے انتظامی ڈھانچے، افعال اور اختیارات میں ردوبدل کرنا ہے۔ اور سب سے نمایاں تبدیلیاں آرٹیکل 175-Aیعنی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں دیکھنے کو ملی ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں نمایاں اور اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ججز کے علاوہ دو عدد ممبران پارلیمنٹ اور ایک خاتون یا غیر مسلم فرد جوکہ پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہو،ایسے فرد کی نامزدگی قومی اسمبلی کا اسپیکر کرے گا۔ یہ تین ممبران بھی کمیشن کا حصہ بن گئے ہیں۔
ترمیم کی بدولت چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کا اختیار پارلیمنٹ کو سونپ دیا گیاہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کی بجائے چیف جسٹس کا انتخاب پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ خان آفریدی میں سے آخر الذکرکا انتخاب کیا۔ جوڈیشل کمیشن کے دائرہ اختیار میں وسعت دے دی گئی ہے۔ جسکی بدولت کمیشن نہ صرف سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججزکی تعیناتی کی سفارش کرے گا بلکہ ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار بھی سونپ دیا گیا ہے۔ کمیشن ہائیکورٹس کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ اگر کمیشن کی نظر میں ہائیکورٹ کے جج کی کارکردگی غیر تسلی بخش قرار پاتی ہے تو کمیشن اس جج کو مخصوص ٹائم فریم کے اندر کارکردگی بہتر بنانے کا خصوصی موقع فراہم کرے گا۔ مخصوص ٹائم فریم کے بعد بھی کمیشن اس جج کی کارکردگی غیر تسلی بخش پاتا ہے تو کمیشن اس جج کی کارکردگی رپورٹ (ججزکا احتساب کرنے والی) سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دے گا۔
جوڈیشل کمیشن اجلاس بلانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس محفوظ تھا مگر ترمیم کے بعد کمیشن کا اجلاس بلانے کے لئے ایک تہائی ممبران ِ کمیشن کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان جو کمیشن کے چیئرمین ہوتے ہیں پندرہ دن کے اندر اندر اجلاس طلب کرے گا۔ اگر چیئرمین مقررہ دنوں کے اندر اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتا ہے تو کمیشن کا سیکرٹری سات دنوں کے اندر اجلاس طلب کرے گا۔سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور ہائیکورٹ میں ججز کی متوقع یا خالی آسامی کے لئے کمیشن کا کوئی بھی ممبر نامزدگی دے سکتا ہے۔ یاد رہے اس سے پہلے متوقع ججوں کی نامزدگیاں چیف جسٹس ہی دیا کرتے تھے۔ ترمیم کی بدولت کمیشن میں چیف جسٹس کی اجارہ داری کا خاتمہ کردیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدہ کی معیاد تین سال یا 65سال عمرتک پہنچ قرار پائی ہے۔ یاد رہے ترمیم سے پہلے چیف جسٹس کے عہدہ کی کوئی میعاد مقرر نہیں تھی،بلکہ 65سال کی عمر ہوجانے پر ریٹائرمنٹ ہوجاتی تھی۔ موجودہ چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی تاریخ پیدائش یکم جنوری 1965ہے، بطور چیف جسٹس عہدہ کا چارج26اکتوبر 2024کو سنبھالا ہے اور وہ تین سالہ عہدہ کی معیاد 26اکتوبر2027کو پوری کرکے ریٹائرڈ ہوجائیں گے حالانکہ یکم جنوری 2030کو 65سال کی عمر کو پہنچیں گے۔
ماضی میں آرٹیکل 184(3)کا سہارا لیکر جس طرز پر افتخار چوہدری، بابا رحمتا ثاقب نثار ایسے ججوں نے سوموٹو کا بے دریغ استعمال کیا۔ جسکی بدولت ریاست پاکستان کو نہ صرف اربوں ڈالر کا نقصان ہوا بلکہ عدلیہ کی انتظامی اُمور میں سرعام مداخلت کی بدولت انتظامیہ کو مفلوج تک کردیا گیا۔ اس ترمیم کے بعد سوموٹو کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔ ترمیم کی سب سے اہم بات آئین میں دو نئے آرٹیکلز کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 191-Aکے تحت سپریم کورٹ میں اور آرٹیکل 202-Aکے تحت ہائیکورٹس میں آئینی بینچوں کا قیام وقوع پذیر ہوگا۔ سپریم کورٹ کا آئینی بینچ کم از کم پانچ ججوں پر مشتمل ہوگا جس میں تمام صوبوں کے ججوں کو مساوی نمائندگی دی جائے گی۔ اورآرٹیکل 184,185اور 186کے تابع ایسے مقدمات کی سماعت کا اختیار ہوگا جس میں آئینی و قانون کی تشریح کا معاملہ درپیش ہو۔ آرٹیکل 209میں ترمیم کرکے سپریم جوڈیشل کونسل کو پابند کیا گیا ہے کہ جج کے خلاف موصول ہونے والی رپورٹ پر کونسل چھ ماہ کے اندر صدر مملکت کوسفارشات ارسال کرے گی۔
بالاشک و شبہ بظاہر چھبیسویں آئینی ترمیم کا مقصد جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس کے عہدہ براجمان ہونے سے روکنا تھا۔جس میں موجودہ حکومت و اتحادی جماعتیں کامیاب ہوگئی ہیں۔ مگر کیا عوام الناس کو حصولِ انصاف میں تیزی دیکھنے کو ملے گی؟ اسکا سادہ سا جواب ہوگا کہ نہیں۔ کیونکہ جب تک سپریم کور ٹ اور پاکستان کی تمام ہائیکورٹس میں ججوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جاتا اور اسکے ساتھ ساتھ خالی آسامیوں کو پُر نہیں کیا جاتاتب تک پاکستانی عوام عدالتوں میں ایسے ہی دھکے کھاتی رہے گی۔کیونکہ آئینی بنچوں پر عدالتوں کے موجودہ جج ہی براجمان ہونگے جو ایک وقت میں آئینی مقدمات سُن سکتے ہیں یا پھر عام مقدمات۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ میں ججوں کی تعداد کو بڑھایا جائے اور پہلے سے موجود خالی آسامیوں کو پُر کیا جائے۔جسکے لئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تاکہ عوام الناس کے ٹیکس سے چلنے والے ریاسی نظام کے ذریعہ عوام الناس کی دادرسی ممکن ہوسکے۔