دانش اور امن کا راستہ

روداد خیال ۔۔۔صفدر علی خاں

فہم وفراست کا تقاضہ تو یہی تھا کہ اسرائیل حماس کے حملے کے بعد عالمی برادری کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر کچھ دیر تحمل کا مظاہرہ کرتا اور جوابی کارروائی کا آپش محفوظ کرلیتا مگر اسرائیلیوں نے اپنا اصل مکروہ اور ظالم چہرہ فوری طور پر دینا کے سامنے پیش کرتے ہوئے مظلوم و محصور فلسطینی عوام پر بارود و آتش کا منہ کھول کر ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کرنا شروع کر رکھی ہیں۔ اسکے برعکس فلسطین کے مظلوم عوام نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک اسرائیلی مظالم برداشت کررہے ہیں اور انکی طرف عالمی برادری بشمول یورپی یونین آج تک اس حوالے سے کوئی پائیدار حل تلاش کرنے میں ناکام ہے ۔حقائق کو سامنے رکھ کر اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کا غیرجانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ کچھ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اسرائیل فلسطینیوں کو “ہڑپ”کرنے کے منصوبے کو عملی شکل دے رہا ہے اس کے لئے اس نے عالمی میڈیا کے بزرجمہوروں کو ساتھ ملایا ہوا ہے اور اسکی ناقابل شکست تصور کی جانے والی فوج پر کوئی حملے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔طویل عرصے سے فلسطینی ظلم وتشدد کا شکار ہیں اور عالمی میڈیا میں انکی مظلومیت کو ظالمانہ کارروائیاں قرار دینے کے چلن نے اسرائیل کی ہر طرح سے من مانیوں کو تحفظ دینے کی راہ ہموار کررکھی ہے مگر حماس کے اس قدر بڑے حملے نے پوری دنیا کو ششدر کردیا کہ جیسے ایک چیونٹی نے ہاتھی کو کان پکڑوا دیئے ہوں ،جیسے چڑیا نے توپیں تباہ کردی ہوں ،لیکن اس عمل میں اب چیونٹی اور چڑیا کو ظالم قرار دیکر ہاتھی اور توپوں کا رخ چونٹیاں مارنے کی جانب موڑنے کا عمل کسی بھی حالت میں منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کا غصہ بجا ہو کہ اسے دنیا پر اپنی طاقت کی ساکھ تباہ ہونے پرسخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم دانش کا تقاضا تو یہی تھا کہ اس پر اپنے خلاف مزید ہزیمت کا سامان پیدا نہ کیا جاتا ۔اسرائیل نے مگر اپنی دائمی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتقام لینے کا اعلان کرکے ظلم کی تمام حدیں پار کردیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر تمام مظالم ڈھائے جانے کے باوجود اسے حماس کے ہاتھوں مکمل مفلوج کرنے کا واقعہ تو تاریخ سے حذف کرنا اب کسی کے بس کی بات نہیں ،تاریخ بن گئی ہے تو پھر ظلم کی نئی تاریخ رقم کرکے اسرائیل اپنی مزید ہزیمت کا سامان پیدا کررہا ہے ،اسے اب تاریخ کے اوراق پر ظالم کے ساتھ “احمق ظالم “بھی لکھا جائے گا ۔انسانی تباہی کا سامان لیکر اسرائیل نے فلسطینی شہریوں کو مکمل حراست میں لے رکھا ہے اور زیرحراست شہریوں کے قتل عام کو مقابلہ اور جنگ کا نام دیکر اپنی بربادی کے آثار پیدا کرتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ مظلوم کی مزاحمت آخری دم پر بھی پانسہ پلٹ سکتی ہے ،اس تناظر میں میرے ہی دوست شاعر شعور زاہد عباس سید نے اس صورت حال کو اس طرح بیان کیا ہے کہ

جو سرزمین فلسطیں ہراس بنتی ہے
وہ ظلم سہہ کے پلٹ کر حماس بنتی ہے
۔۔۔۔۔۔اسرائیل کے مظالم پر مزاحمت ایک فطری عمل ہوگا اس سے پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا ۔جنگیں کبھی کسی تنازعے کا حل نہیں ہوتیں ،یہ قتل وغارت گری کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے آج اسرائیل سیکڑوں بچے مار رہا ہے تو فلسطینی بھی کل مزاحمت کے نام پر پھر سے کسی نئی مزاحمتی تحریک کے نام پر ہتھیار ضرور اٹھائیں گے اور یہ خطرناک گوریلا جنگ خود اسرائیل نے اپنی حماقت سے اپنے گلے میں ڈالی ہے اس سے نسلوں کی بربادی ہوگی ،تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔پائیدار امن کا ایک موقع ضائع کر دیا گیا ہے مگر اب بھی انتقام کے نام پرلڑی جانے والی اسرائیل یہ جنگ روک کر عالمی حامیوں کے ساتھ امن مذاکرات کا راستہ کھول سکتا ہے یہی دانش کا تقاضہ ہے ۔

Comments (0)
Add Comment