حریر:شاہنواز خان
لاہور سے ہمارا عشق تو بہت پرانا ہے ۔لاہور دیکھنے کی خواہش ہر پاکستانی کی طرح ہمارے دل میں بھی بستی تھی۔ اور اس خواہش کی تکمیل کرکے اپنے جنم کو مکمل کرنا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے جس نے لاہور نہیں دیکھا جمیانہیں(پیدا نہیں ہوا)۔
یہ غالبا ۱۹۸٦ تھا، جب میٹر ک کے امتحانات کے بعد میں اپنے کزن منور جاوید کے ساتھ لاہورر دیکھنے کی خواہش کی تکمیل کے لیےساری رات کا سفر کرکے پہلی بار لاہور آیا تھا اور مجھے یاد ہے اردو بازار میں رہنے والی پھوپھو کے گھرقیام کیا تھا کچھ دن لاہور میں رہ کر لاہورکے تاریخی مقامات کی خوب سیر کی ان دنوں کی تصاویر اوریادیں آج بھی محفوظ ہیں۔اور زندگی کا سرمایہ ہیں۔
مجھے کیا اس وقت کیا معلوم تھا کہ زندگی کا یہ سفرایک دن مجھے اسی شہر میں مستقل رہنے کے لیےلےآئے گا۔ ۲۰۱۳ میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں لاہور آیا اور پھر لاہور کے عشق نے واپس نہیں جانے دیا کچھ عرصہ بعد فیملی بھی شفٹ کرلی بچوں نے یہاں کی کالج یونیوسٹیوں میں داخلے لیے اور ہم بھی لاہوری ہوگئے۔
شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد!!!!
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو!!
آج کے لاہور کو ہم اس وقت دو حصوں میں تقسیم دیکھتے ہیں پرانا لاہور اور نیا لاہور نیا لاہورتمام جدید ٹاؤن اورہاؤسنگ سکیم پرمشتمل ہے جو رِنگ روڑ کے چاروں اطراف تیزی سے پھیل رہی ہیں ۔ ماضی کا لاہور جو اونچی فصیل اور 13 دروازوں میں مُقید تھا کب کا آزاد ہو چکا اور بقول پطرس بخاری ، اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے، اور روز بہ روز واقع تر ہو رہا ہے۔
پرانا لاہوراپنی تاریخی میراث کا وارث ہے ۔بادشاہی مسجد،شاہی قلعہ، تاریخی دروازوں ، مینار پاکستان ،شالیمار باغ، داتا دربار سمیت سینکڑوں تاریخی مقامات پر مشتمل ہے۔ ان تاریخی مقامات کی ہرگلی ہر بازار ہرکوچہ ،بے شمار تاریخی واقعات کا امین ہے۔
انہی تاریخی مقامات میں سے ایک انارکلی بازار لاہور ہے جسکا شمار برصغیر کے قدیم ترین بازاروں میں ہوتا ہے اور یہ لاہور کی ثقافت، تاریخ، اور تجارتی روایات کی ایک منفرد علامت ہے۔ یہ بازار لاہور کی مرکزی شاہراہ مال روڈ پر واقع ہے اور اس کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے، جو مغلیہ دور سے شروع ہوتی ہے۔ جیسے لاہور پاکستان کا دل ہے اسی طرح انارکلی بازار لاہور کا دل ہے اور یہاں کی قدیم و جدید تہذیب کا سنگم ہے، جہاں لوگ نہ صرف خریداری کے لیے آتے ہیں بلکہ لاہور کی تاریخی عمارتوں، روایتی ماحول، اور قدیم کہانیوں کی خوشبو میں بھی خود کو کھو دیتے ہیں۔
انارکلی بازار کا نام “انارکلی” کی مشہور رومانوی داستان سے منسوب ہے۔ روایت ہے کہ انارکلی، جو ایک مغل کنیز تھی، مغل شہزادہ سلیم (بعد میں شہنشاہ جہانگیر) کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی۔ یہ محبت شہنشاہ اکبر کو پسند نہ آئی، اور کہا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں انارکلی کو لاہور میں زندہ دیوار میں چُنوا دیا گیا۔
انارکلی بازار کی بنیاد انیسویں صدی میں رکھی گئی ،اور یہ اپنی منفرد طرزِ تعمیر، تنگ گلیوں، اور قدیم عمارتوں کی وجہ سے مشہور ہوا۔ شروع میں یہ ایک چھوٹا سا بازار تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ لاہور کے سب سے اہم تجارتی مراکز میں شامل ہو گیا۔ یہاں پر مقامی دستکاریوں، ملبوسات، اور روایتی زیورات کی خریداری کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔
پرانی انارکلی بازار، جو اصل میں لاہور کے قدیم شہر کے قریب ہے، زیادہ تر کھانے پینے کی اشیاء اور روایتی لذیذ کھانوں کے لیے مشہور ہے۔ یہاں پر پرانے طرز کے ریسٹورنٹس اور کھانے پینے کے اسٹالز ہیں جہاں لوگ لذیذ پکوان، جیسے کہ نہاری، پائے، حلوہ پوری، اور دیگر روایتی پاکستانی کھانوں کا مزہ لینے آتے ہیں۔
نئی انارکلی بازار، جو پرانی انارکلی کے مقابلے میں نسبتاً جدید ہے، زیادہ تر کپڑوں، زیورات، جوتوں، اور دیگر اشیاء کی خریداری کے لیے مشہور ہے۔ یہ بازار مال روڈ کے ساتھ واقع ہے اور یہاں مختلف قسم کے ملبوسات، شادی بیاہ کے کپڑے، روایتی دستکاریوں، اور زیورات کے اسٹالز موجود ہیں۔ یہاں پر دستکاریوں کے علاوہ مختلف قسم کے فیشن ملبوسات بھی دستیاب ہیں، جو یہاں آنے والوں کے لیے کشش کا باعث بنتے ہیں۔
مجھے دس سال لاہورمیں رہنے کے باوجود انار کلی بازار کے بارے میں بس اتنا ہی معلوم تھا جتنا میں نے آغاز میں بتایا ہے۔ ل
یکن ہمارے ایک دوست نے کچھ اس انداز میں انارکلی بازار شان کی بیان کی جس پر ہمیں انور مسعود صاحب کی نظم کا وہ مصرہ یاد آگیا۔
تو کی جانے بھولی مھجھجھے انار کلی دی شاناں
گزشتہ روز حسب روایت ہم اپنی کالونی کے دوستوں سید تنویر شاہ صاحب ،شاہد خان صاحب اور ڈاکٹر الطاف سندھو کے ساتھ بیٹھے تھے تو ہمارے دوست اور ہمسائے عاشق علی بھٹی تشریف لائے۔
بھٹی صاحب یاروں کے یار مہمان نواز تو ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ لاہورشہر کا پوراانسائکلوپیڈیا ہیں ۔شاعری،ادب،تاریخ اور سیاست پر مکمل عبور رکھتے ہیں پنجابی کے انقلابی اشعار انہیں زبانی یاد ہیں۔
۔باتوں باتوں میں ذکر شروع ہوگیا لاہور کے تاریخی انارکلی بازار کا ،کہنے لگے میں نے ۸۰ کی دہائی میں اپنے چھوٹے سے کاروبار کا آغاز اسی بازار سے شروع کیا تھا اللہ کے فضل سے آج اسی کی بدولت میں یہاں تک پہنچا ہوں پھر انہوں نے جس انداز میں اس تاریخی انار کلی بازار اور اس سے منسک لوگوں کی کے بارے میں بتایا وہ خود ایک تاریخ ہے ۔
عاشق بھٹی صاحب نے جس انداز سے انارکلی بازار اس جڑے کلچر اور ثقاٰفت کا نقشہ پیش کیا۔ انہوں بتایا کہ لاہور کے مشہور ہوٹل انار کلی میں تھے جن میں دہلی مسلم ہوٹل ،مجسٹیک ہوٹل ،شاہین ہوٹل شانزہ ہوٹل ملک بھر سے شاعر ،ادیب ،گلوکار،فنکار،اداکار جب لاہور آتے تو ان انہی ہوٹلوں میں ٹھہرتے تھے ۔ جن میں مقبول صابری، زپبا بختیار ،نصرت فتح علی اور بہت سے معروف افراد شامل تھے۔
اسکے ساتھ ساتھ انار کلی بازار کی پان گلی، قطب دین ایبک کا مزار ، جالندھرموتی چور مٹھائی کی دُکان، وارث نہاری والااور پیسہ اخبار انارکلی کی پہچان تھے۔
بھٹی صاحب نے بتایا کہ ایک گمنام شاعر ادیب جنکا نام قمر یورش تھا انار کلی بازار آیا کرتے تھے انہوں نے ایوب خان کے دور میں قعلہ میں جیل کاٹی تھی اور بہت تشدد برداشت کیا انکی کتاب تھی ’’شاہی قلعہ سے جیل تک ‘‘مشہور تھی ،ان کے ساتھ میرا بڑا تعلق تھا۔
ایک اور بڑے شاعر پُرنم اللہ آبادی کا بھی انارکلی سے گہرہ تعلق تھا۔ وہ غزل پر کمال رکھتے تھے ان کے کئی گیت انڈین فلموں میں مقبول ہوئے۔ پرنم کی نعت
،،بھردو جھولی میری یامحمد لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی۔۔کاش پرنم دیار نبی میں حال دل مصطفی کو سناؤں تھام کر میں روضےکی جالی،،
نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی مگر اس شاعر کو بہت کم لوگ جانتے ہیں ،غلام فرید مقبول صابری برادرز نے گا کر اس نعت کو امر کردیا۔
ایک اور عظیم شاعر احسان دانش پیسہ اخبار کے سامنے شاہین ہوٹل کے اوپر رہتے تھے وہ بھی ایک دُرویش آدمی تھے ، یہ سب شعراء پاک ٹِی ہاؤس میں جمع ہوتے تھے وہاں فیض احمدفیض ،حبیب جالب سمیت کئی بڑے شعراء کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔یوں انکار کلی صرف شاپنگ کا بازار نہیں تھا بلکہ شعر و ادب فن اور فنکاروں کی آماجگاہ تھا جہاں سے لاہور کا علم و ادب فروغ پاتا تھا اور پورا پاکستان اس سے مستفید ہوتا تھا ۔پاک ٹی ہاؤس میں ادبی نشستیں ہوتی تھیں ،جہاں ملک بھر سے شاعر و ادیب تشریف لاتے اور ادب سے عشق رکھنے والے وہاں جمع رہتے تھے۔
عاشق بھٹی نے بتایا کہ ہم اسی انار کلی بازار اور اس کے کلچر سے عشق تھے اورآج اس رویات کے عاشق ہیں کیونکہ انار کلی تہذیب و ثقافت کا مرکز تھی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ اس شہر کو محبتوں کا شہر کہتے ہیں اور بہت سے شعراء نے اپنے اشعار میں لاہور سے محبت کا ذکر کیا ہے جیسے ڈاکٹر فخر عباس نے کیا خوب کہا ہے۔
یہ جو لاہور سے محبت ہے
یہ کسی اور سے محبت ہے
اس بازار نے زندگی کے ہر رنگ دیکھے اور سینکڑوں برس کی تاریخ اپنے سینے میں سموئے ہوئےہے۔ اس بازار سے محبت کا تقاضہ ہےکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے انارکلی بازار کو بطور ِتاریخی ورثہ محفوظ بنایا جا ئے اور اس تاریخی ورثے کو ماضی کے اوراق میں گم ہونے سے بچایا جائے۔اور اسکی لاہورشہر کی ادبی منظر نامے میں کردار کو آجاگر کیاجایے۔