اداریہ
پاکستان میں عدالتی اصلاحات کے حوالے سے اہم پیش رفت ہورہی ہے آئین میں 26ویں ترامیم کے حوالے سے ارکان کی گنتی پوری ہونے کے دعوے ہورہے ہیں اس حوالے سے اپوزیشن نے بھی ووٹنگ کے عمل میں سرپرائز ملنے کا دعویٰ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کئی حکومتی ارکان اسمبلی آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ نہیں ڈالیں گے ۔اس تناظر میں اب کئی معاملات صاف ہوئے ہیں ۔مولانق فضل الرحمان ،صدع آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی لاہور میں صرف دو دن قبل مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی ہے ،سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے حوالے سے بھی ایم پیش رفت ہوئی ہے ۔حکومت نے اپنے ارکان اسمبلی کی جانب سے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کا پابند بنادیا گیا ہے اسکے باوجود اپوزیشن کی جانب سے متضاد دعوے سامنے آنے پر اب حکومت کی جانب سے نئی حکمت عملی تیار کرلی ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کا اہم مشاورتی اجلاس ہوا، اجلاس میں آئینی ترمیم کے حوالے سے اتحادیوں جماعتوں کے رہنماؤں کو اعتماد میں لیا گیا۔ وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کےپارلیمانی لیڈران کو جمعرات کو مشاورت کے لیے بلایا۔ ایم کیوایم ،باپ، ق لیگ ،پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں خالد مقبول صدیقی، اعجاز الحق، خالد مگسی نے شرکت کی۔اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کا معاملہ زیرغور آیا، اجلاس میں چوہدری سالک حسین اور انور الحق کاکڑ بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ آئینی بینچ بنے گا فوجی عدالتوں کے معاملے پر بھی ارکان کو بریف کیا گیا۔آئینی ترمیم آج ایوان میں پیش کیے جانے کا امکان ہے اور ہفتے کے دن ووٹنگ کروانے کا پلان بنایا گیا ہے، آئینی ترمیم کے معاملے پر اتحادیوں نے وزیراعظم کی حمایت کی یقین دہانی کروا دی، پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس صبح 11 بجے ہو گا۔دریں اثنا : 26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ کی تیاری حتمی مرحلے میں داخل، مجوزہ آئینی ترمیم کےاہم نکات سامنے آگئے۔ذرائع کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ میں سپریم کورٹ کے 5 یا 9 رکنی آئینی بینچ کے قیام اور صوبوں میں آئینی بینچ تشکیل نہ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔مجوزہ ڈرافٹ میں شامل تجاویز کے مطابق آئینی بینچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن کرے گا اور آئینی بینچ کا سربراہ بھی جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا جبکہ آئینی بینچ میں ردو بدل کا اختیار چیف جسٹس سپریم کورٹ کو نہیں ہو گا۔مجوزہ ڈرافٹ میں شامل ایک اور تجویز یہ ہے کہ آئینی بینچ کے تقرر کی میعاد مقرر ہو گی جبکہ سو موٹو نوٹس کا سپریم کورٹ کا اختیار ختم کرنے کے لیے ترمیم کی تجویز بھی ڈرافٹ کا حصہ ہے۔ایک اور تجویز یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر تین سینئیر ترین ججز میں سے ہو گا جبکہ چیف الیکشن کمیشن کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق وزیراعظم اپوزیشن لیڈر میں اتفاق نہ ہونے پر چیف الیکشن کمشنر کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔18 ویں آئینی ترمیم کو مکمل بحال اور 19ویں آئینی ترمیم کو مکمل ختم کرنے کی تجویز بھی ڈرافٹ میں شامل ہے۔مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق آرٹیکل 63اے میں ترمیم کے تحت پارٹی پالیسی کے تحت ووٹ شمار ہوگا جبکہ آرٹیکل 48 میں ترمیم بھی مجوزہ آئینی ڈرافٹ میں شامل ہے۔مجوزہ ڈرافٹ میں شامل ایک تجویز کے مطابق وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی صدر کو بھیجی گئی ایڈوائس چیلنج نہیں ہوسکے گی اور کسی ادارے عدالت یا اتھارٹی کو صدر کو بھیجی گئی ایڈوائس پر تحقیقات یا کارروائی کا اختیار نہیں ہوگا۔ان حالات میں حکومت اور اسکے اتحادیوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہونے کی بات کی گئی ہے ۔پاکستان کے عوام کو ان حالات میں آگے بڑھنے سے روکنا خاصا مشکل ہوگا ۔