تحریر ۔۔۔۔۔حیدرقریشی (جرمنی)
زندگی! دیکھ بجھتے ہوئے لوگ ہم
بزمِ جاں میں چمکتے رہے رات بھر
۔۔۔۔ناناجی بنیادی طورپرایک محنتی، جفاکش اور سیلف میڈ انسان تھے۔ نانی جی اور ناناجی کی عمروں میں خاصافرق تھا۔ نانی جی ساری زندگی ناناجی کے شدید دباؤ میں رہیں اور ناناجی کی سخت گیری نے انہیں مزید نرم بنادیا۔وہ اپنا غصہ کسی پر بھی نہ اتارسکیں، خود میں گھلتی رہیں اور ۵۳سال کی عمر میں ہی وفات پاگئیں۔ زندگی بھرتوناناجی کا تختہ مشق بنی رہیں۔ بیماری کے آخری ایام میں بھی ناناجی نے ا ن کا علاج کہیں اور کرانے سے روک دیااور اپنی حکمت کے مختلف نسخے اس وقت تک اُن پر آزماتے رہے جب تک وہ فوت نہ ہوگئیں۔ وفات سے چند گھنٹے پہلے نانی جی نے ناناجی سے فرمائش کی کہ ریوڑیاں کھانے کو جی کرتا ہے۔ ناناجی خود عمدہ قسم کی ریوڑیاں لے کر آئے اور اپنے ہاتھوں سے نانی جی کو کھلاتے رہے۔ ناناجی جیسے سخت گیر شوہر کے ہاتھ سے اتنی محبت کے ساتھ ریوڑیاں کھانا نانی جی کے لئے ناقابل یقین خوشی تھی۔ اس واقعہ کے چند گھنٹے بعد نانی جی کو نیند آگئی۔ ممانی مجیدہ نے دیکھا کہ نانی جی بڑے سکون کی نیند سورہی ہیں۔ ان کا ماتھا ٹھنکا۔ آج کے دور کے انسان کو خواب میں بھی ایسا سکون کہاں نصیب ہوتاہے۔ ممانی مجیدہ نے امی جی کو بلایا اور پھر سارا گھر جمع ہوگیا۔ نانی جی فوت ہوچکی تھیں۔۔ میرا خیال ہے وہ ناناجی جیسے سخت گیر شوہر کی محبت سے حیرت زدہ ہوئیں اور پھر اسی حیرت اور بے انتہا خوشی کے نتیجہ میں فوت ہوگئیں۔
۔۔۔۔ناناجی کی سخت گیری کا ایک تاریخی واقعہ میرے ساتھ بھی رونما ہوا۔ میں دس گیارہ سال کاتھا۔ مجھے پندرہ سیر گندم آٹے کی چکی سے پسوانے کے لئے دی گئی۔ چکی والے نے گندم رکھ لی اور کہا کل آکر لے جانا۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ گھر والوں کو بتائے بغیر ساتھ کی گراؤنڈ میں کھیلنے چلاگیا۔ گھر میں غالباًآٹاختم تھا اس لئے میرا انتظارہورہاتھا۔گھر آیاتو ڈانٹ پڑی لیکن میری وضاحت سے سب کی تسلّی ہوگئی۔ بدقسمتی سے اس وقت ناناجی موجود نہیں تھے رات کو جب ناناجی گھرآئے میں سوچکاتھا۔ صبح سویرے مجھے ناناجی نے جگایااور پوچھارات آٹاکیوں نہیں لائے؟ میں نے تسلّی بخش جواب دے دیا۔ اب انہوں نے پوچھا پسوائی کی چوّنی کہاںہے؟۔ ایک تو نیندکا خمار، پھر صبح کا ملگجاسماں۔۔ جیب میں دیکھاتو چوّنی نہیں تھی۔ ناناجی کے ہاتھ میں بڑے سائز کا ایک درویشی عصارہتاتھا۔ بس اسی سے میری مرمت شروع کر دی ۔ اس دن ناناجی کے سونٹے سے مجھے اندازہ ہواکہ ’’موسوی عصا‘‘میں کتنی طاقت ہوتی ہوگی۔ امی جی میں تو ہمت نہیں تھی کہ مجھے چھڑاتیں۔ اتفاق سے ممانی مجیدہ نے میرے بستر کو چیک کیاتو وہاں سے چونی مل گئی۔ ممانی مجیدہ جیسی مظلوم عورت میں اس دن نجانے کہاں سے اتنی ہمت آگئی۔ میرے اور ناناجی کے بیچ آکر ان کاعصاپکڑلیا۔ یہ بہت بڑی جسارت تھی۔ چڑیا کا شہباز پر جھپٹناتھا۔ ’’یہ لیں اپنی چونی ۔۔ اس کے بستر پر گری پڑی تھی۔ناحق بچے کی اتنی دھنائی کردی‘‘۔ اس دن ممانی مجیدہ کی ایسی محبت مجھ پر منکشف ہوئی جس کاعشر عشیر بھی پھر کسی ممانی کے ہاں نظر نہیں آیا۔اس دن چڑیا، شہباز سے جیت گئی تھی۔ ناناجی ڈھیلے پڑگئے۔
۔۔۔۔ان واقعات سے یہ بھی نہ سمجھ لیں کہ ناناجی کوئی ’’ہلاکوخان‘‘قسم کی چیز تھے۔ ان میں بلا کی ذہانت اورحسّ مزاح تھی۔ میرے باباجی اور اباجی کی ساری خوبیوں اور خامیوں کو اگر جمع کردیاجائے تو ناناجی بن جائیں گے۔ تنگ دستی کی حالت میں بھی بچوں کی بنیادی ضروریات کا پوراخیال رکھتے۔ گرمیوں میں شربت کی بوتلیں اور سردیوں میں وسیع پیمانے پر پنجیری تیارکراتے۔ دونوں موسموں میں یہ چیزیں بچوں کو باقاعدگی سے فراہم کی جاتیں۔ ناناجی کی اپنی خوراک بہت کم تھی لیکن شرط لگائی تو ایک دفعہ دس کلو گوشت کھاگئے اور ایک دفعہ گنے کے رس کی پوری بالٹی پی گئے۔ شادی بیاہ کی تقریبات پر ناناجی کے اندرکا ’’میاں سراجدین‘‘ باہر آجاتا۔ اپنی اولاد، دامادوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں نواسیوں، سب کے ساتھ مل کر بیٹھتے۔ سب سے گانے سنتے۔ خود بھی پنجابی کے لوک گیت اور ’’ ہِیر‘‘ بڑے اچھے ترنم کے ساتھ سناتے۔
رضوانہ کو شروع میں ہم روزی کہتے تھے ناناجی نے ایک سال کی اپنی پڑنواسی کو گود میں لیا۔ اتفاق سے بچی کو فراک بھی گلابی پہنارکھی تھی۔ ناناجی نے بچی کا نام پوچھا۔ روزی کا لفظ سن کر مسکرائے اور کہنے لگے یہ تو ’’مس گلابو‘‘ ہے۔ گویا روزی کا پنجابی میں عمدہ ترجمہ کردیا۔ ناناجی سے کبھی ہم پوچھتے کہ ناناجی آپ کہاں تک پڑھے ہیں؟ پنجابی لہجے میں اس طرح کہتے ’’اینویں پاس ہوں‘‘جیسے کہہ رہے ہوں ’’ایم۔اے پاس ہوں‘‘۔
جوں جوں بڑھاپا بڑھتاگیاناناجی کی کرختگی ختم ہوتی گئی اور حسِّ مزاح نمایاں ہوتی گئی۔ نانی جی کی وفات کے بعد ناناجی نے لگ بھگ ۲۰سال زندگی گزاری۔ دوسری شادی کا نام لیاجاتا تو پہلے ایک گالی دیتے پھر ہنس پڑتے۔ کہتے اگر میں اس عمر میں بھی شادی کرلوں تو تمہارا ایک اور ماموں پیداہوسکتاہے۔ ناناجی نہانے سے سخت پرہیز کرتے تھے۔ صرف عید کے عید نہاتے۔ ایک دفعہ مجھے کہنے لگے نکلاچلاؤ میں نے وضو کرنا ہے۔ ناناجی نے صرف چادر اور واسکٹ نما پھتوئی پہنی ہوئی تھی۔ میںنے نلکاچلاناروک کرکہاناناجی !نہا کیوں نہیں لیتے؟۔۔ سراٹھاکر میری طرف مسکراکر دیکھا اور کہنے لگے:
’’بیٹے! جب سے تمہاری نانی مری ہے مجھے نہانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ چلو تم نلکا چلاؤ اور وضو کراؤ‘‘
۔۔۔۔ناناجی نے عملی زندگی میں ہر طرح کی محنت کی۔ مسجد کے موذن رہے۔ چارپائیاں بُننے کاکام بھی کیا۔ منیاری کا کام بھی کیا(منیاری سے مراد صرف گوٹہ کناری کی فروخت سمجھیں) حکمت کا کام بھی کرتے رہے۔ یہ کام عمر کے آخری حصے تک کرتے رہے اور اس سے انہیں اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ گویا کسی کے محتاج نہیں تھے۔ ناناجی کے بعض نسخے میں نے ان سے ان کی زندگی میںہی لئے تھے۔ بعض حسّاس قسم کے نسخے ان کی وفات کے بعد ان کی کاپی