اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے ( دوسرا حصہ )

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دشتِ امکاں

بشیر احمد حبیب

یہاں سے واپسی کا سفر آ سان نہیں ۔ پہلا قدم addict کا مضبوط ارادہ ہے کہ وہ خود اس سچوئشن سے نکلنا چاہتا ہے ۔پھر rehabilitation سنٹرز کا رول ہے ، یہ بڑا costly ہے اور غریب آ دمی کی بساط سے باہر ہوتا ہے ، کچھ گورنمنٹ ہاسپٹلز میں یہ علاج ممکن ہوتا ہے مگر وہاں داخلے کا حصول ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے جرائم پیشہ ڈرگ سمگلرز ہسپتالوں تک بچوں کا پیچھا کرتے ہیں ۔

اس کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آ پ بچے کی پرورش اس ماحول میں کریں کہ وہ اعلی اخلاقی اقدار کا پاسدار ہو اور بجائے خود ان تمام راستوں کی پہچان کر سکے جو کسی نشےکی لعنت کی طرف اس کو لےجا سکتے ہیں اور ان سے دور رہے ۔۔

بچے کا پہلا مکتب اس کا گھر ، پہلے استاد اسکی ماں ، اور دوسرا استاد اسکا باپ ، پھر گھر کے دوسرے افراد ، پہلا سبق جو ماں دیتی ہے وہ پیار ہے ، ماں کا بچے سے پیار ،
پیار کا یہ سبق کبھی کم نہیں ہوتا ۔
پھر وہ ساری تربیت جو ماں اور باپ اس کو دیتے ہیں اپنے قول سے وہ اتنی موثر نہیں ہوتی ، بچہ اس تربیت کا زیادہ اثر لیتا ہے جو ہم اس کو اپنے عمل سے دکھا رہے ہوتے ہیں ۔
مثلآ ماں کہتی ہے سگریٹ پینا انتہائی خطرناک ہے مگر باپ سگریٹ پیتا ہے ، تو اس کا بہت زیادہ احتمال ہے بچہ کبھی نہ کبھی اس عادت کا شکار ضرور ہو گا ۔

بچے کو سائیکالوجیکلی مضبوط بنانے کے لیے گھر میں ماں اور باپ کے تعلق آئیڈیل ہونا اتنا ہے ضروری ہے جتنا زندگی کے لیے خوراک کا ، اگر گھر میں ہر وقت جھگڑے اور سخت رویے روا رکھے جاتے ہیں تو بچہ ایک دن ضرور depression میں جائیگا ۔

آ ئیڈیل ماحول کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ زندگی کے مسائل و مصائب کا مل کر اور صبر اور شکر ادا کرتے ہوئے سامنا کریں اور دعاگو رہیں کہ اللہ ایسے مسائل سے ان کو اور بچوں کو بچائے رکھے ۔

یاد رکھیں زیادہ آسائش کبھی مسائل کا حل پیش نہیں کرتی ، میں Denver امریکہ میں اپنے دوست کے سیون الیون سٹور پر کھڑا تھا ، پاس ہی بچوں کا سکول تھا جیسے ہی لنچ بریک ہوا اس نے اپنی منیجر کو کیش کاوئنٹر پہ کھڑا کیا اور خود داخلی دروازے پر کھڑا ہو گیا ۔
وہ مستقل وہیں کھڑا رہا جب تک کہ آخری بچہ سٹور سے نکل نہیں گیا ۔ میں نے پوچھا یہ کیا تھا اسنے کہا بچے چوری کرتے ہیں اور جیبوں میں چیزیں ڈال کر لے جاتے ہیں ۔ جب ہم entrance دروازے پر موجود ہوں تو وہ سمجھتے ہیں وہ under آبزرویشن ہیں ۔ میں نے کہا ماں باپ کی تربیت کا کوئی اثر نہیں ، کہنے لگا یہاں قانون کا ڈر ہے اگر اس کا ڈر نہ ہو تو اکثریت لوٹ کھسوٹ کرتی ہے ۔

میں نے وہاں ایک اچھی بات بھی دیکھی ، سگریٹ کے لیے عمر کی حد اس ریاست میں اٹھارہ برس تھی ، کچھ ریاستوں میں 21 برس ہے ، اور وہ باقاعدہ ID سے عمر چیک کر کے بچوں کو سگریٹ دے رہا ہے۔ مجھے یہ اچھا لگا ۔

مگر ایک ایسی بات جس پر مجھے حیرت بھی ہوئی ، وہ میری جوانا ( marijuana) کی فروخت تھی جو بھنگ سے extract ہوتی ہے ۔ اس کی فروخت بھی سگریٹ کی طرح کی جاری تھی ۔ میرے دوست نے بتایا میری جوانا کی خریدو فروخت امریکہ کی دس ریاستوں میں allowed ہے ۔

یہاں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے ترقی یافتہ ممالک میں نشہ آور اشیا کے استمال کا رجحان خطرناک حد تک زیادہ ہے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں ترقی ، depression اور نشے کا استمال آپس میں directly پروپورشنل ہیں۔

گھر کے اچھے ماحول کے بعد دوسری جگہ سکول ہے ، جہاں پر بچے کی orientation کا صحیح ادراک ماں باپ کو ہونا چاہیے ۔ وہ صحت مند مصروفیات میں اپنا وقت گزارے جیسا کے ڈیبیٹس ، گیمز ، اچھے دوست ۔

بچے کے مستقبل کے حوالے سے استاتزہ کا کردار اتنا اہم ہے کہ ایک اچھا استاد بچے کے زمین و آسمان بدل دیتا ہے ۔

یہاں میں گھر کی example دینا چاہوں گا ، مجھے بچوں کے سکول میں سالانہ ایوارڈز کی تقاریب میں جانے کا اتفاق ہوا ، وہ انگلش میڈیم سکول تھا اور ان کی ڈاریکٹر مسز رحمان نے سٹیج پر آ کر فیض کی صبح آ زادی پڑھی جس کا آغاز کچھ یوں تھا ۔۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں۔۔

اور اس نظم کا آ خری مصرع تھا ،

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

یہاں آپ اس سکول کے اساتزہ کے وژن کو داد دے سکتے ہیں ، اسی سکول میں مسز فائقہ بھی ہیں ، جن کے ہاتھوں سے ہر سال کئی بچے دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں سکالر شپس اور فنانشیل ایڈز پر داخل ہو رہے ہیں ، اور یہ ان اساتزہ کی رہنمائی اور محنت کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ یہ صرف ایک سکول کا احوال ہے اور یہاں سیکڑوں ایسے سکول ہیں جو یہ نتائج پیدا کر رہے ہیں۔

ان ہی سکولوں سے بچے امریکہ کی Ivy Leagues میں بھی جا رہے ہیں اور دنیا میں اپنا اور ملک کا نام روشن کر رہے ہیں ۔ اور یہیں پر ایسے بچے بھی ہیں جو ماں باپ کے خوابوں کو تیاگ کر اندھیروں کی نزر ہو رہے ہیں ۔

اب ہم اس اہم سنگ میل کی طرف آ تے ہیں جس کو عبور کرنا پل صراط سے گزرنا ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بچے کچی عمر میں کسی کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں اور پھر وہاں سے دشتِ تمنا کے ہزاروں راستے نکلتے ہیں ۔ پہلی منزل بچے کی محبت کو

Comments (0)
Add Comment