نام ۔ اقرا لالی
پاکستان میں گریجویشن کے بعد نوکری نہ ملنے کا مسئلہ ایک ایسا بھنور بن چکا ہے جس میں ہر سال ہزاروں گریجویٹس پھنس جاتے ہیںیں۔ یہ طوفان صرف ایک معاشرتی مسئلہ نہیں بلکہ ذاتی، گھریلو اور نفسیاتی چیلنج بھی ہے، جس کا سامنا کرنا ہر گریجویٹ کے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔ آپ نے میڈیکل، انجینئرنگ، بزنس، آئی ٹی، یا آرٹس, چاہے کسی بھی فیلڈ میں ڈگری حاصل کی ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نوکریاں اس ملک میں میسر نہیں۔ ڈاکٹرز ہیں تو ہسپتالوں میں جگہ نہیں، انجینئرز ہیں تو تعمیراتی کمپنیاں ہاتھ نہیں آتیں، آئی ٹی کے ماہرین ہیں تو کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے بیٹھے “freelancer.com” پر پروفائل بنا رہے ہوتے ہیں، اور آرٹس کے طلبہ کو تو ویسے ہی بے کار سمجھا جاتا ہے۔ یہ صورتحال ایسی ہے کہ جیسے آپ نے تو فلائٹ کا ٹکٹ لے لیا ہو، لیکن ہوائی جہاز آپ کو لینے کے بجائے خود کہیں اور اُڑ جائے۔ یہی حال ہمارے بے چارے گریجویٹس کا ہوتا ہے۔
پاکستان میں گریجویشن کے بعد نوکری نہ ملنے کا المیہ کچھ ایسا ہے جیسے بندہ کھانا پکانے کی پوری ریسیپی تو یاد کر لے، لیکن چولہا ہی نہ ہو! جی ہاں، ہمارے ہاں تعلیم حاصل کرنا اور پھر نوکری ڈھونڈنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے گوگل پر “فری میں پیسے کمانے کا طریقہ” سرچ کرنا۔ جب نوکری نہ ملے تو آپ کو ایک آپشن دیا جاتا ہے: “انٹرنشپ کر لو!”۔ اب انٹرنشپ ایسی چیز بن چکی ہے جیسے کسی کو پانی پلا کر بھوک مٹانے کی کوشش کی جائے۔ کمپنیاں فوراً کہتی ہیں: “ہمیں تجربہ کار لوگ چاہئیں، لیکن آپ کو انٹرنشپ مل سکتی ہے”۔ آپ کو انٹرن بنا کر کمپنی والے آپ سے پوری محنت لیتے ہیں، اور جب نوکری دینے کی باری آتی ہے، تو کہتے ہیں: “آپ کا تجربہ اچھا تھا، مگر ابھی آپ کے لیے کوئی پوزیشن خالی نہیں ہے”۔ انٹرنشپ کا یہ دورانیہ اتنا لمبا ہو جاتا ہے کہ آپ کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ نے ڈگری لی ہے یا ‘انٹرن’ بننے کا لائسنس۔ دن رات محنت کرنے کے باوجود آپ کو مستقل ملازمت کی خوشخبری سننے کو نہیں ملتی۔ لوگ کہتے ہیں: “تجربہ حاصل کرو، تبھی اچھی نوکری ملے گی”۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نوکری کون دے گا؟ ہر کوئی تو انٹرن ہی رکھنا چاہتا ہے۔
کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب آپ کسی کمپنی میں انٹرویو دینے جاتے ہیں، تو وہ آپ سے پانچ سال کا تجربہ مانگتے ہیں۔ اب بندہ یہ سوچتا ہے کہ “بھئی، میں تو ابھی یونیورسٹی سے نکلا ہوں، پانچ سال کا تجربہ کہاں سے لاؤں؟” اور ان کا جواب ہوتا ہے، “آپ نے تعلیم تو حاصل کی ہے، لیکن ہمارے پاس آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔” یہ سن کر دل کرتا ہے کہ آپ اپنی ڈگری کو فریم میں لگا کر دیوار پر ٹانگ دیں اور اس سے روزانہ پوچھیں، “کیا تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے؟” پاکستان میں بے روزگاری صرف ایک معاشرتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی چیلنج بھی بن چکا ہے۔ طلبہ کے لیے نوکری نہ ملنے کا مطلب صرف مالی مشکلات نہیں، بلکہ خود اعتمادی کی کمی اور مایوسی بھی ہے۔
جب آپ کو کسی محفل میں یہ سوال سننے کو ملتا ہے، “تو بیٹا، نوکری کہاں کر رہے ہو؟” اور آپ دل میں سوچتے ہیں کہ زمین پھٹ جائے اور آپ غائب ہو جائیں۔ لیکن افسوس کہ زمین پھٹتی نہیں، اور آپ کو پوری محفل کے سامنے اپنی بے روزگاری کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ اور جب آپ جواب دیں کہ “ابھی تلاش کر رہا ہوں”، تو وہ ایسے دیکھتے ہیں جیسے آپ نے کہا ہو کہ “میں مریخ پر زندگی تلاش کر رہا ہوں، لیکن ابھی کامیاب نہیں ہوا۔” پھر والدین اور رشتہ دار روزانہ آپ کو نئے نئے مشورے دیتے ہیں، گویا ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہے، سوائے اس کے کہ وہ آپ کو خود نوکری دلا دیں۔ اس سچائی کا سامنا کرتے ہوئے بہت سے نوجوان دباؤ اور افسردگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف معاشرتی اور خاندانی دباؤ کا سامنا کرتے ہیں، بلکہ نوکری نہ ملنے کی مایوسی سے ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ کچھ طالب علم تو اس سب سے تنگ آ کر ماسٹرز کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں، گویا یہ ان کی بے روزگاری کو ختم کرنے کا واحد حل ہے۔ والدین کو بھی اس بات پر خوشی ہوتی ہے کہ “چلو، ابھی پڑھائی میں لگا ہوا ہے، کام نہ سہی، ڈگری تو مزید بڑی ہو رہی ہے۔” لیکن یہ ماسٹرز بھی ایک عارضی حل ہے، اور حقیقت میں مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
اب اگر بات کی جائے سرکاری نوکریوں کی تو پاکستانی معاشرہ اس قدر سرکاری ملازمتوں کا دیوانہ ہے کہ ہر گھر میں یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ “بیٹا بس سرکاری نوکری کر لے، پھر زندگی سُکون سے گزرے گی۔” لیکن سرکاری نوکریوں میں ہونے والی بدعنوانی اور اقربا پروری نے اس خواب کو بھی حقیقت سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ حکومتی ادارے نوکریوں کی بھرتیوں کے دوران رشوت اور سفارش سے کام لیتے ہیں۔ حق دار طلبہ، جو دن رات محنت کر کے میرٹ پر آتے ہیں، انہیں کوئی پوچھتا نہیں، جبکہ سفارشی امیدوار نوکریاں لے اُڑتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف بے انصافی کا باعث بنتی ہے بلکہ نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
پاکستانی معاشرے میں نوکری کے حوالے سے ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہر کسی کو صرف “اعلیٰ تنخواہ” والی نوکری چاہیے۔ جب تک آپ لاکھوں روپے کما رہے ہوں، آپ کی عزت محفوظ ہے، اور جتنی آپ کی تنخواہ کم ہوگی، اتنی ہی آپ کی عزت بھی گر جائے گی۔ یہ سوچ نہ صرف نوجوانوں کے اندر غیر ضروری دباؤ پیدا کرتی ہے بلکہ معاشرتی عدم توازن بھی پیدا کرتی ہے۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر پاکستانی گھر میں والدین کے دل میں ایک خواب جنم لیتا ہے: “بیٹا، کم از کم ایک بار تو سی ایس ایس کا امتحان