برگد  کا تاریخی درخت

احساس کے انداز

تحریر ؛۔ جاویدایازخان

کہتے ہیں کہ برگد  یعنی (بوہڑ ) درختوں کا صوفی  یا بزرگ سمجھا   جاتا ہے۔ بلکہ کچھ لوگ اسے درختوں کا بادشاہ بھی خیال کرتے ہیں ۔یہ نہ صرف ہر طرح کے  پرندوں  اور جانوروں کے بسیرے کے لیے محفوظ اور پسندیدہ درخت ہے۔ بلکہ یہ اپنی  منفرد خوبصورتی  اور سائے کی کشش کی باعث ازل سے ہی انسانوں  اور جانوروں کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔تاریخ میں اسے مقدس بھی تصور کیا جاتا رہا  ہے ۔بلکہ مختلف مذاہب میں  تو اسے عبادات کا جزو  بھی سمجھا جاتا رہا ہے ۔کہتے ہیں کہ ہمیشہ  برگد کے درخت کو آبادی کی علامت قرار دیا جاتا تھا ۔جہاں برگد کا درخت ہو وہاں جاندار کا ہونا لازمی ہوتا ہے ۔چوپال ہو یا کوئی ڈیرہ یہ درخت اجتماعی  زندگی کی علامت ہوتا ہے ۔جہاں باہمی محبتیں پروان چڑھتی ہیں ۔ایسا ہی ایک پرانا درخت ڈیرہ نواب صاحب کے چوک میں ہوا کرتا تھا۔ جس کا گردش زمانہ نےآج نشان تک مٹا دیا ہے ۔یہ برگدہم جیسے ناجانے کتنے ہی بچوں  کی یادوں میں آج بھی محفوظ ہے ۔جو اس کے سائے تلے جواں ہوۓ اور اسکی مضبوط تنے کے سہارے کھیلے اس کی ٹہنیوں اور شاخوں سے لپٹ کر بڑے ہوۓ ۔یوں تو پورا ڈیرہ نواب صاحب درختوں اور باغات سے بھر ا ہوا تھا  ۔بارشوں کی بہتات ہوا کرتی تھی ۔لیکن اس برگد یا بوہڑ کے درخت کی اپنی ہی ایک انفرادیت ہوا کرتی تھی ۔کہتے ہیں کہ برگد  یا بوہڑ   کا  یہ درخت طویل عمر ہوجاۓ تو اس کی  لٹکتی شاخیں اور ریشے جھک کر زمین سے مل جاتے ہیں اور درخت کی چوڑائی بڑھ جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں اسے” ریش برگد ” یعنی داڑھی والا برگد کہا جاتا ہے اور یہی اس کی بزرگی کی علامت ہے ۔واقعی  ہمارا یہ  درخت بھی ایک ایسا  بزرگ درخت ہی ہوتا تھا ۔

ڈیرہ نواب صاحب جو  صدیوں سے ریاست بہاولپور کا درالخلافہ اور فر مانروان بہاولپور کا  ذاتی مسکن رہا ہے ۔جب ساٹھ کی دہائی میں میں نے ہوش سنبھالا  تو یہاں کی رونقیں ایسی ہی تھیں جیسا کہ آجکل اسلام آباد دکھائی دیتا ہے ۔یہ سرسبز  جنت نظیر خطہ اپنی بےپناہ خوبصورتی  شاہی محلات کی وجہ سےپوری دنیا   لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوا کرتا تھا ۔یہاں نواب امیر آف بہاولپور نے جدید بازار تعمیر کرایا  جو اس زمانے کے اعتبار سے ایک خوبصورت  ترین بازار سمجھا جاتا تھا۔جسکے پرانے اور بوسیدہ  آثار آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔یہ چھوٹا سا بازار  مڈل اسکول سے شروع ہوتا اور ایک بہت ہی خوبصورت  چوک پر جاکر اختتام پذیر ہوتا تھا۔جسے آج بھی ڈیرہ نواب صاحب چوک کہا جاتا ہے۔ یہی وہ جگہ تھی جو چولستان ،چکوک اور دیہاتوں کا گیٹ وے سمجھی جاتی تھی ۔یہ چوک سنگ مر مر کی  خوبصورت چاردیواری سے مزین تھا ۔جس کے درمیان ایک سنگ مرمر کا خوبصورت فوارہ نصب تھا ۔جس سے پانی  پھواریں اردگرد کی پھلواری کو سیراب کرتی رہتی تھیں ۔یہاں سے ایک سڑک صادق گڑھ پیلس   تک اور پھر ایک چھوٹی نہر کے ساتھ ساتھ چولستان اور چکوک کو جاتی تھی۔ اسی سڑک پر سرکاری ہسپتال  اور تاریخی قلعہ ڈیراور کو جانے والا  سرکاری خوبصورت راستہ بھی ہوا کرتا تھا ۔جو شہزادہ ہارون الرشید کی کوٹھی اور باغ سے گزرتا تھا ۔ ،دوسری سڑک نور منزل یعنی سرکاری مہمان خانے کو  ،تیسری جدید بازار اور چوتھی ڈیرہ نواب صاحب کی مختلف آبادیوں کی جانب جاتی تھیں ۔نور منزل دراصل سرکاری مہمان خانہ تھا جو کسی محل سے کم نہ تھا ۔جس کے ارد گرد کئی ایکڑ میں مختلف پھلوں کا  ایک باغ ہوتا تھا ۔ہم بچپن میں اس مہمان خانے اور اسکے باغ میں کھیلتے رہے ہیں ۔جبکہ یہ  چوک تو بچوں کے کھیلنے کے لیے کسی پارک سے کم نہ تھا  ۔فوارے کے اردگرد  چار لان اور پھلواری بنی تھی درمیان میں پتھر سے بنی بیٹھنے کے لیے ایک بینچ  ہر لان میں لگا ہوا تھا ۔اسی چوک سے صادق گڑھ پیلس جانے والی سڑک کی جانب  یہ  برگد ( بوہڑ ) کا قدیم درخت ہوا کرتا تھا ۔جس کا تنا ہی تقریبا” چھ فٹ کا ہو گا ۔یہ اس قدر بڑا اور پھیلا ہوا تھا کہ پورا چوک اس کے سائے تلے سمایا رہتا تھا ۔یہ عجیب جادوئی درخت تھا پورے چوک کو تمام دن سائے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈک فراہم کرتا تھا ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس درخت نے کسی ستون کی طرح  پورے شہر کو تھام رکھا ہے ۔اس درخت کے نیچے اینٹوں کا فرش لگا تھا  ۔جہاں چکوک اور چولستان کو جانے اور وہاں سے آنے والے مسافر اسی کے سائے تلے دم لیتے اور پھر اپنی اپنی منزل کی جانب رواں ہوجاتے تھے ۔اسی لیے اس چوک کے اردگرد کئی ہوٹل اور چاۓ کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ مجھے پکوڑے والے شاہ جی اور سوہن  حلوے والے   کلر آج بھی یاد ہیں  ۔اسی بوہڑ کے در خت کے نیچے سے سواریاں احمدپور شرقیہ جانے کے لیے تانگوں پر سوار ہوتی اور چکوک جانے والی سواریاں  ایک پرانے زمانے کی کھٹارا گاڑی کا انتظار کرتیں تھیں ۔چولستانی باشندے اپنے اونٹ باندھتے   گویا یہ جگہ کسی سراۓ کا منظر پیش کرتی تھی ۔اگر یہ کہا جاۓ تو زیادہ درست ہوگا کہ یہ جگہ شہر کی سب سے بارونق جگہ سمجھی جاتی تھی ۔اسی درخت کے تلے بزرگ شہری اپنی پنچائت کرتے ۔نوجوانوں کی تاش کی ٹولیاں شور مچاتی دکھائی دیتیں تھیں ۔اسی جگہ مداری  اور شعبدہ باز اپنا تماشا کرتے  اور اسی بوہڑ کے درخت تلے محفل موسیقی بھی سجتی تھی ۔ایک کونے میں بھنگ کے چاہنے والے اپنی دنیا میں مگن ہوتے  تو دوسری جانب  شہر کا مشہور مجذوب  طوطی بھی اسی درخت کو اپنی پناہ گاہ سمجھتا تھا ۔اسی چوک کے ایک جانب ایک چھوٹی سی مسجد بھی تعمیر کردی گئی تھی جو آج بھی موجود ہے ۔کاش میں اس درخت کے پھیلاو اور حجم کو اپنے الفاظ میں بیان کر سکتا ۔اسی کے نیچے محرم  میں سب سے بڑا ماتم اور یہیں پر عید میلادالنبی کے جلوس و جلسے ہوا کرتے تھے ۔اسی رونق کی وجہ سے یہ چوک کاروباری گڑھ بھی بن گیا تھا ۔چکوک اور چولستان کے لوگ گوشت سبزی اور ضروریات زندگی یہاں سے ہی خریدتے تھے ۔جب ہم دوستوں نے شہر یا سینما دیکھنے یا پھر  کہیں اور جانے کے لیے اکھٹے ہونا ہوتا تو کہتے کہ یار ظہر کی نماز کے بعد بوہڑ کے نیچے آجانا ۔یہاں کے لوگوں کی اس درخت سے انسیت کا ندازہ اس بات سے لگا لیں کہ میرا ایک دوست سعودی عرب چلا گیا وہ جب بھی فون کرتا کہتا یار ہمارے بوہڑ کا کیا حال ہے ؟ یعنی اپنے گھر والوں کی خریت کےساتھ ساتھ بوہڑ کے اس درخت کی خریت بھی لی جاتی تھی ۔جب بھی وہ چھٹی پر آتا ہم اس درخت کے تلے بیٹھ کر شاہ جی کے پکوڑے اور اللہ بخش ہوٹل کی چاۓ سے ضرور لطف اندوز ہوتے تھے ۔بلدیہ کی صفائی والی ٹیم روزآنہ یہاں کی صفائی کرتی تھی اور ماشکی چھڑکاو ٔ لگاتے تھے تاکہ مٹی جمی رہے  البتہ خاص خاص موقع پرسفید  چونا بھی بکھیرا جاتا تھا تاکہ یہ علاقہ جراثیموں سے محفوظ رہے ۔

ریاست بہاولپور کے ختم ہوتے ہی  بےروزگاری اور بے رونقی نے اس شہر کو گھیر لیا  اور لوگوں کی نقل مکانی کا آغاز ہوا پھر متبادل راستوں نے اس گزرگاہ کی  حیثیت کم کردی ۔عمارات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگیں ۔پرانے گھر کھنڈر بننے لگے ۔لوگ روزگارکی تلاش میں ہجرت کرنے لگے ۔زمینیں اور گھر فروخت ہونے لگے ۔اسی افراتفری کے دوران  نئی نسل کے لیے اس کی اہمیت نہ رہی اور اس بوڑھے اور تاریخی درخت کو  بھی آہستہ آہستہ کا ٹنا شروع کردیا گیا اور آخر کا ر اس کا وجود ختم ہو گیا اور اس کی جگہ پر دوکانیں تعمیر  ہو گئیں۔ ۔آنے والی نسلوں کو شاید یہ پتہ بھی نہیں ہو گا کہ یہاں کوئی ایسا  درخت بھی ہوتا تھا ۔جس کا سایہ پورے شہر کو ڈھانپےرکھتا تھا ۔میں جب بھی اپنے اس آبائی شہر اور آبائی گھر جاتا ہوں تو مجھے اپنا گھر اباجی  مرحوم کے بغیر سونا سونا لگتا ہے اور جب اس چوک سے گزرتا ہوں تو یہ چوک اس بوہٹر کے درخت کے بغیر خالی خالی اور ویران  لگتا ہے ۔میں سوچتا ہوں کہ کتنے عظیم  اور بڑی سوچ کے مالک تھے وہ ہمارے اجداد  جنہوں نے صدیوں پہلے یہ درخت اپنی آنے والی نسلوں کے لیے لگایا تھا  ۔یہ صدقہ جاریہ صدیوں لوگوں کا سایہ فراہم کرکے ان کی روح کو ثواب پہنچاتا رہا   اور پھر حواداث زمانے نے اس شہر کو اس کی خوبصورتی سے محروم کردیا ۔آج پوری دنیا میں فضائی آلودگی کی باعث سانس لینا دشوار ہو رہا ہے ۔ آج پوری دنیا میں یہی مادہ پرستی کا آژدھا ہماری سکون اور صحت مند زندگی پر غالب آگیا ہے ۔ہمارے علاقے میں گرمی کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت لوگوں کو جھلسانے لگا ہے  پانی کی کمی بڑھتی جارہی ہے اور ایک مرتبہ پھر یہ احساس ہوا ہے کہ ایسے درخت  ہی دراصل ہماری  زندگی کی بقا کی ضمانت  ہیں ۔کاش ہماری یہ نسل اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر ایسے کچھ درخت لگاۓ جن کا سایہ آنے والی نسلوں کے لیے زندگی کی آسانیاں پیدا کرسکے ۔خدارا   شجر کاری کریں اور اپنے علاقوں کو آنے والی شدید گرمی سے محفوظ رکھنے کی کوششوں کا حصہ  بنیں ۔ہمیں آج اس بوہڑ جیسے درختوں کی بہت ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بوہڑ کا  درخت دوٹن کے ایرکنڈیشن کے برابر کام کرتا ہے ۔اور سانس لینے کے لیے تازہ آکسیجن کا بھی منبع ہوتا ہے ۔یہ درخت بارشوں کا باعث بن کر پانی کی کمی دور کر سکتے ہیں ۔نئی شجر کاری اور پرانے درختوں کی آبیاری ہم پر ہمارے اجداد کا قرض اور آنے والی نسلوں کی بقا کاراستہ ہے ۔آئیں شجرکاری کی اس مہم کا حصہ بن کر اپنا فرض ادا کریں ۔بزرگ درختوں کا حترام  اور حفاظت ہمارا فرض ہی نہیں  بڑی نیکی بھی ہے ۔

Comments (0)
Add Comment