تحریر۔۔۔چوہدری محمد مجید
یہ حقیقت روز روش کی طرح عیاں ہے کہ معیشت پائیدار ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اب تک انسان نے اپنی بقا کی جنگ کے لیے اپنے دور کے شعور کے مطابق مختلف قسم کے معاشی نظام کا تجربات کرنے کے باوجود پائیدار اجتماعی فلاح و ترقی کے حصول میں ناکام رہا ہے. جس کی کئی وجوہات ہیں۔ استحصالی نفسیات پر مبنی ہر نظام میں مجذوب فرنگی جذبہء محرکہ کی جستجو میں ناکام رہا ہے۔موجودہ نظام میں کسی بھی اچھے، نیک، صالح، مخلص آدمی کو لا کر بٹھا دینے سے مسائل حل نہیں ہونگے ، کیونکہ جو نظام انفرادی مفادات کی بنیاد پر قائم ہو، اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ انسان کے تمام مسائل کو حل کر سکے۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
کہ تجھ کو کھا گیا سرمايہدار حيلہ گر!!
اس لئے ضرورت ایسے نظام کی ہے جو کہ انسان کی تمام تر ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرے اور انسانی اقدار ،ضروریات کو احسن طریقے سے نبھایا جاسکے اور ایسا صرف نظام ربوبیت سے ممکن ہے۔ جس میں معاشرے کو ضرورت کے مطابق وسائل تک دسترس اور تقسیم یقینی بنانا ہے اور اس کے لیے انتظامی امور اس طرح سر انجام دینا ضروری ہے جس سے وسائل انفرادی طور پر صرف چند ہاتھوں میں ہی نہ ہوں بلکہ اجتماعی فلاح کا حصول ممکن ہو سکے ۔آج بھی وسائل کی عادلانہ تقسیم کا مسئلہ درپیش ہے. جو سراسر انسان کے خود ساختہ نظام کی بد انتظامی کی وجہ سے ہے ،ورنہ رب العالمین نے ہماری ضروریات سے زائد اسباب اور وسائل عطا کیے ہیں .یاد رہے کہ مجذوب فرنگ کو مقام کبریا نظام ربوبیت سے میسر آئے گا. جب ہم نظام ربوبیت کی طرف بڑھیں گے جس میں انسان کے تمام مسائل کا حل موجود ہے،تو پھر اس کو چھوڑ کر کسی اور نظام کی جانب رجوع کرنا ہی غلط ہے۔انسان کو بہترین پیدا کیا گیا ہے اسکے مہیجات اسے اچھے یا برے ماحول میں داخل کر دیتے ہیں ،انسان کو بہترین صلاحیتیں بخشی گئی ہیں اور ان سے استفادہ کی صورت نکالنا بھی خود انسان کے اپنے اختیار میں ہے ۔اب اقوام عالم میں کئی طرح کے نظام رائج ہیں مگر یہ سب انسان کے اپنے تیار کردہ ہیں جن سے کئی بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرے اور ملک کو ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کررہے ہیں اور کچھ بہتر نظام کو خراب کرکے اپنی خوشحالی کی منزل کواپنے ہاتھوں سے دور کررہے ہیں ۔آج اس جدید دور میں ریاست کو ماں جیسا کہا گیا ہے ۔
ریاست کا کوئی مذہب نہیں نظام ہوتا ہے جس کے تابع وہ چلتی ہے۔ تعلیمات الٰہی پہ مبنی نظام (دین) کا نام “اسلام” ہے جس کے مقابلے میں انسانوں نے دنیا میں کیپٹل ازم، سوشلزم ازم، کمیونزم، لبرل ازم وغیرہ بنا رکھے ہیں۔امیری غریبی خدا نہیں، معاشی نظام پیدا کرتے ہیں!۔اللّٰه ربُّ العزّت کی طرف سے نازل کردہ معاشی نظام صرف خوشحالی کے لیئے ہی ڈیزائن ہُوا ہے جبکہ سرمایہ دارانہ اور سوشلزم معاشی نظام طبقاتی معاشرے کو بنانےکے لیئے انسانوں نے ڈیزائن کیئے ہیں۔ان سب کو زوال ہے مگر کائنات کی تخلیق کرنے والے خدائے بزرگ وبرتر کے ازلی اور قدرتی نظام کو کہیں بھی زوال نہیں ،قدرت کے قوانین سے آگاہی رکھنے والوں کی مشکلیں ہمیشہ آسان ہو جایا کرتی ہیں ۔انسانی اقدار کو تحفظ دینے اور بنیادی حقوق کی پاسداری کرنے والے نظام کو ہی ثبات ہے ۔