تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
بنوہاشم کے سردار عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ اچانک دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور پھر آمنہ کے گھر چاند چمکا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری کائنات کو اپنی بے مثال اور بے نظیر روشنی سے روشن کردیا۔ غم اور خوشی دم بدم۔ربیع الاول کے ماہ مقدس میں نبی آخر الزمان کا ظہور ہوا اور اس سہانی گھڑی پوری کائنات وجد میں اگئی۔ کعبہ بھی عبد المطلب کے گھر کی طرف جھک گیا۔ بلکہ دیکھنے والوں نے بہت کچھ دیکھا تاہم بینا نابینا برابر نہیں ہو سکتے۔ نبوت کا جو سلسلہ آدم سے شروع ہوتا ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر آکر مکمل ہو جاتا ہے۔ بینات کی تکمیل۔ حق وصداقت کا جھنڈا اور پوری کائنات میں نمایاں۔ شر اور شیطان کی بے چینی کی اخیر اور الیوم اکملت کی آیت کا نزول اور فرمان رسول۔ اے لوگو جو یہاں موجود ہو وہ غور سے سنو اور ان تک پہنچاو جو یہاں نہیں ہیں اور یوں ہدایت کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ محمد مصطفی آئے بہاراں مسکرا پیاں۔ جب بہار آتی ہے تو مہر ومہ تماشائی ہوتے ہیں اور صانع فطرت کے رنگ نرالے ہیں۔ محمد ہمارے بڑی شان والے۔ جس شان تھیں شاناں سب بنیاں۔عرب کے بدو صحبت سے مہذب و متمدن بن گئے۔ کئی کئی سال لڑائیاں لڑنے والے مواخات کی بدولت بھائی بھائی بن گئے۔ قیصروکسری کی کہانی اپنے انجام کو پہنچی اور کعبہ کو بتوں سے پاک کر کے لبیک لبیک کی صداوں سے مستقل طور پر آباد کردیا گیا اور میخانہ محمد کا دائمی طور پر انسانیت کے فیوض وبرکات کا مرکز قرار دے دیا گیا۔ جس جس نے عبد اللہ کے لعل کو دیکھا بے ساختہ اللہ اکبر کہنے پر مجبور ہو گیا۔ اور جس نے اللہ اکبر کہا اس پر ہدایت کے سارے دروازے وا ہو گئے اور پھر عرفات کے میدان سے ایک آواز اٹھتی ہے اور اس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ وہ کیا آواز تھی۔ کاش ہم آج بھی ہمہ تن گوش ہو جاتے تو ہمیں سب کچھ سنائی دیا جاتا اور ہم کو پتہ چلتا کہ سب انسان برابر ہیں کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ گورے کالے سب برابر۔ بڑائی کا معیار تقوی کی بنیاد پرہے۔ بنیاد مضبوط ہو تو عمارت ہمیشہ پائیدار ہوتی ہے۔ استحصالی نظام کا مکمل خاتمہ ہو چکا اور سود کو مستقل طور پر زمین برد کردیا گیا۔ نفرت اور شقاوت کو معافی کی تیلی سے نذر آتش کردیا گیا۔ عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک جامع پروگرام۔ غلام آزاد ہو گیا اور آقا کے برابر آ کر بیٹھ گیا یوں انسانیت کے ارتقاء کا سفر اپنی معراج کو پہنچا۔ معراج کا سفر اور تفاصیل “جانے جان والا یا لے جان والا” نماز فرض ہو گئی یوں بدن اور روح کی غذا کا بندوبست اور پھر روح اور بت کی لڑائی کا مستقل خاتمہ۔ دو کی کہانی ختم۔ اکو اکا دوجا ناں کو اور دوئی دور کرو۔ واحد ہے اور نظر نہ آیا نظیر اپنا جب زمانے میں خدا نے آپ کہا لا الہ الا اللہ۔ یہی وہ کلمات تھے جو انسانیت کے ماتھے کا جھومر ٹھہرے اور جو جو ماتھے معبود حقیقی کے سامنے سر بسجود ہوئے وہی سرخرو ہوئے اور معلوم ہوا کہ ایسے تو نہ حضرت انسان کو مسجود ملائک بنایا گیا تھا۔
مکہ میں پیدا ہونے والا بچہ جب چالیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اعلان نبوت کیا جاتا ہے۔ ابلیس کے چیلے چانٹے آگ بگولا۔ بیوی چچا زاد بھائی اور دوست کا آواز پر لبیک کہنا اور دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جانا۔ اپنے رب کے لئے طائف میں لہولہان ہونا۔ اپنے چچا ابولہب کا ہاتھ اٹھنا اور پھر اللہ تعالی کا جاہ وجلال اور سورہ لہب میں اپنے غیض وغضب کا واضح اعلان۔ شعب ابی طالب میں تین سالہ محصور ہونے کا زمانہ اور صبر ورضا کا بے مثال مظاہرہ۔ “کوئی مثل ناں ڈھولن دی چپ کر مہر علی اتھے جا نئیں بولن دی”۔ اچانک حضرت خدیجہ الکبری اور پھر حضرت ابوطالب کا یکے بعد دیگرے دنیا سے چلے جانا اور قریش کی ساری توپوں کا رخ ایک طرف اور بستر پر علی کا لیٹ جانا اور اپنے رفیق دوست کے ساتھ کوچ۔ مدینہ آباد ہوتا ہے۔ میثاق مدینہ اور پھر تہذیب وتمدن کے ایک نئے دور کا آغاز۔ بدرواحد اور حنین میں حق کا بول بالا اور پھر مکہ میں جاءالحق و زھق الباطل اور پھر کفرو شرک سے اللہ کے گھر کا پاک ہونا۔ عرفات کے میدان میں الیوم اکملت لکم دینکم کا اعلان خداوندی۔ نسخہ کیمیا کی تکمیل اور اللہ کا اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لینا۔ سید وسرور محمد نور جاں کا اپنے رب کے حضور پیش ہو جانا اور ورفعنا لک ذکرک کی صداوں کا گونجنا۔ محمد اور آل محمد پر درود وسلام اور نسبت سرکار مدینہ کی بدولت امت کا ممتاز ہونا۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہہ دو کہ اگر آپ اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہیں تو میری اتباع کرو اللہ آپ سے محبت کریں گے۔ اور پھر ارشاد ہوتا ہے کہ نبی آپ کے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ لہذا حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی سے استفادہ کرنے کا باقاعدہ ہمیں حکم دیا گیا ہے اور ہماری کامیابی بھی اسی میں ہے کہ ہم سنت رسول پر عمل کریں اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرنا کوئی اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ اسلام کا عبادات اور معاملات کا ایک مربوط نظام ہے اور اس کی عملی شکل نبی آخرالزمان نے ہمارے سامنے پیش کی ہے۔ دنیا میں رہنا اور دنیا والوں کے لئے رہنا۔ بڑوں کا احترام کرنا۔ چھوٹوں پر مہربانی کرنا۔ کسی کا حق نہیں مارنا۔ بھوکے اور پیاسے کو کھلانا پلانا۔ بیمار کی تیمارداری کرنا۔ ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا۔ دشمنیوں کو بھلا کر بھائی چارے کی فضا قائم کرنا۔ عورتوں کے حقوق کا پورا خیال رکھنا ماں بہن بیوی اور بیٹی کے رشتوں کے