احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
آجکل تو لوگ کمروں میں ایرکنڈیشن میں بڑے بڑے بیڈوں پر سوتے ہیں ۔بجلی نہ ہو تو جنریٹر اور یوپی ایس سے پنکھے چلتے رہتے ہیں ۔لیکن ہمارا بچپن بھی عجیب ہوا کرتا تھا ۔سخت گرمیوں میں باہر صحن میں سونا اور وہ بھی بغیر پنکھے کے بڑ ا مشکل ہوتا تھا ۔بہت گرمی لگتی تو ہاتھ کے پنکھے جھلنا پڑتے ۔ہماری ماں بیچاری تو شاید رات رات بھر چھوٹے بچوں کو گرمی سے بچانے کے لیے ہاتھ سے پنکھا جھلتی رہتی تھی ۔عجیب ماں تھی دن بھر سخت گرمی میں پورے گھر کا کام کرنا اور زیادہ وقت چولہے کے ساتھ بیٹھ کر گیلی لکڑیوں کو پھونکنی سے جلانے کی کوشش میں اپنے چہرے ہی جھلسا لینا پھر شام ہونے سے قبل صحن میں چھڑکاو کرکے اسے ٹھنڈا کرنا اور پھر اپنی پیٹھ پر اپنی اور ہم نو بچوں کی چارپائیاں اٹھا اٹھا کر صحن میں بچھانا اور ان پر بستر تکیے لگانا اور پھر صبح ہوتے ہی ان چارپائیوں کو واپساٹھا کر سائے میں رکھنا ۔اب محسوس ہوتا ہے کہ ان کے چہرے،جسم اور ہاتھ کھردرے کیوں ہو جاتے تھے ۔پسینے اور گرمی دانوں سے جلد جل کر رہ جاتی تھی ۔وہ خاتون تھی یا کوئی جن اب تو سوچ کر ہی لرز اٹھتا ہوں ۔سخت گرمی میں ہم نے دعا کرنی کہ اللہ میاں آندھی ہی آجاۓ مگر خدا کرے بارش نہ ہو کیونکہ آندھی میں تو سویا جاسکتا تھا لیکن بارش میں اٹھ کر بھاگنا پڑتا تھا ۔آندھی کے بعد جب صبح اٹھ کر ایک دوسرے کو دیکھتے تھے تو مٹی سے اٹے چہرے دیکھ کر ہنسی نکل جاتی تھی ۔اباجی نے گھر میں ہی ایک بڑا پانی کا حوض سا بنوا رکھا تھا فورا” جاکر ہر فرد جلدی جلدی پانی بہاتا اور آندھی کی مٹی سے اٹا ہوا چہرہ دیکھنے کو ملتا ۔اور اگر آندھی کے ساتھ برسات یا بارش ہو جاتی تو تھوڑی بہت بارش میں تو بھیگنے کا مزا لیتے رہتے لیکن جونہی تیز بارش ہوتی تو رات کے اندھیرے میں بھگڈر سی مچ جاتی بارش کے ساتھ ساتھ بچوں کا شور بھی مچ جاتا سب بچے تو اٹھ کر اندر یا برآمدے میں بھاگ جاتے لیکن بڑےلوگ سب بستر لپیٹ کے اٹھانے اور چارپائیاں اندر منتقل کرنے میں لگ جاتے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ کوئی ایک آدھ چارپائی تیز بارش کی باعث باہر ہی رہ جاتی یا پھر عام طور ایسا تب ہوتا جب بارش کے آثار دیکھ کر اس رات چارپائیاں باہر نہ نکالتے تھے اور کوئی چارپائی اکثر باہر پڑی رہ جاتی تھی عام طور پر یہ چارپائی کوئی زیادہ کارآمد نہ ہوتی تھی اس لیے باہر پڑے رہنے دیا جاتا تھا ۔بعض اوقات اندھیرے کی باعث بھول ب