ڈاکٹر مظفر عباستحریر
میرے خیال میں میرٹھ کی شناختیں دو ہی ہیں،ایک جنگ آزادی کا آغاز چھاؤنی میں سپاہ کی بغاوت،دوسری اسماعیل میرٹھی،اس بے مثال نظم کے خالق
ؔرب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی اُس مالک کو کیوں نہ پکاریں جِس نے پلائیں دودھ کی دھاریں خاک کو اُس نے سبزہ بنایا سبزے کو پھر گائے نے کھایاکل جو گھاس چری تھی بَن میں دودھ بنی اب گائے کے تھن میں سُبحان اللہ دودھ ہے کیسا تازہ، گرم سفید اور میٹھا/ مگر ہم اسماعیل میرٹھی کو بس اسی ایک حوالےسےزیادہ جانتے ہیں اور اُن کے دیگر حوالے عموما” نظروں سےاوجھل ہی رہے ہیں،سب سے بڑاحوالہ یہ ہےکہ اسماعیل میرٹھی نےاپنے دورکے منفعت بخش پیشے اورسئیری کوٹھوکرمار کرمعلمی کا پیشہ اختیار کیا،روڑکی اورسئیری کالج کو چھوڑچھاڑکرواپس میرٹھ آگئےاور محکمۂ تعلیم میں کلرکی کرلی،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابتدائی دینی تعلیم کے بعداُنہوں نےمیٹرک کیا اورپھرمیرٹھ نارمل سکول سےٹیچرز ٹریننگ کی سندحاصل کی، جس کے بعدوہ سہارنپورمیں فارسی کے استاد مقررہوئے،اُن کواس پیشے سے ایسا عشق ہواکہ جب انہیں ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز کے عہدے پر ترقی دی گئی تواُنہوں نے خرابئ صحت کاعذر پیش کرتےہوئے یہ عہدہ قبول نہ کیا اور بالآخرمدرس کےطور پرہی نارمل سکول آگرہ سے ۱۸۸۹ع میں ریٹائر ہوئےاوراپنی زندگی کےآخری ایام تک ادبی سرگرمیوں کےساتھ ساتھ بلکہ ان سے بیش تر تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دیتے رہے،اُن کے ادبی سرمایہ میں اُن کاکلیات اور اُن کا پہلا شعری مجموعہ “ریزۂ جواہر” تو معروف ہیں،اُن کی لکھی بچوں کی نظمیں بھی شہرت عام رکھتی ہیں مگر جو پہلو نظروں سے اوجھل ہے وہ اُن کی تدریسی خدمات خصوصا”اُن کی نصاب سازی اورنصابی کتب کی تدوین ہے،بلکہ اُن کے کلیات میں کچھ ایسی غزلیں بھی مل جاتی ہیں جو براہ راست نصابی اور تدریسی مقاصد کے پیش نظر کہی گئی ہیں: وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی منزل اور وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو/
وہی شکرہےجو سپاس ہے وہ ملول ہے جو اداس ہے
جسے شکوہ کہتے ہو ہے گلہ تمہیں یادہو کہ