تحریر ؛۔جاویدایازخان
کہتے ہیں کہ برداشت کا ہمارے ظرف سے بڑا قریبی تعلق ہوتا ہے کیونکہ ہمیں قوت برداشت ہمارا ظرف ہی فراہم کرتا ہے ۔عدم برداشت دراصل ہمارے ظرف کی کمزوری کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے ۔موجودہ معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت کا رجحان اس جانب اشارہ ہے کہ ہم اعلیٰ ظرفی کی صفت سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔اعلیٰ ظرفی برداشت کی طاقت عطا کرتی ہے ۔کہتے ہیں کہ ظرف کا مطلب ہے کہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ ایسا کچھ کرکے دکھانا جہاں آپ کی انا آپ کو آگے نہ بڑھنے دۓ ۔عموما” انسان وہاں اپنا ظرف کھو دیتا ہے جب وہ اپنے سے کسی کم زور یا رشتے میں کسی چھوٹے سے معاملات کرتا ہے ۔اس کے علاوہ جب انسان اپنے سے کسی بڑے کے سامنے بھی حق پر ہوتے ہوۓ بھی جھگڑرا چھوڑ دیتا ہے اور معاف کردیتا ہے جبکہ وہ ایساکرنے پر قدرت بھی رکھتا ہو تو یہ اعلیٰ ظرفی ہوتی ہے ۔حدیث مبارک ہے کہ “جو چھوٹے پر رحم اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ” غصہ اور مایوسی برداشت کرنے کے لیے ہمارا ظرف ہی ہمیں توانائی بخشتا ہے اور ہمیں دل برداشتہ ہونے سے بچاتا ہے ۔یا پھر کہا جاسکتاہے کہ ان حالات میں اپنی سوچ کو بالاۓ طاق رکھتے ہوۓ حسن ظن سے کام لینا اور مثبت معاملہ سازی کو ظرف کہا جاتا ہے ۔ظرف کے لفظی معنی برتن کے ہیں ۔انسانی سوچ انسان کر ترتیب دیا ہوا وہ برتن یا سانچہ ہے جس میں کسی کی زیادتی یا کم عقلی کو سمونے کی زیادہ سے زیادہ گنجائش موجود ہو اسے ظرف کہتے ہیں ۔بزرگ کہتے ہیں کہ کم ظرف کا غصہ اور مایوسی اسے کھا جاتی ہےجبکہ اعلیٰ ظرف کا غصہ اور مایوسی اسے بنا جاتی ہے ۔ظرف کا سائز جتنا بڑا ہوگا برداشت کرنے کی جگہ اورگنجائش اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔یہ جو گنجائش کہلاتی ہے اسے دراصل صبر ،درگزر ،معافی اور حوصلہ ہوتا ہے جو اس ظرف میں منفی باتوں اور رویوں کو جذب کر لینے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ زندگی ہمارے اسی وصف کا بار بار امتحان لیتی ہے جو ہمارے اندر موجود ہوتا وصف دراصل برداشت ہو تو ہر معاملہ باآسانی حل ہوجاتا ہے ۔حضرت واصف علی واصف کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن پر مہربان ہوتا ہے ان کے حوصلے بڑھا دیتا ہے (یعنی ظرف بڑا کر دیتا ہے )جو برداشت بڑھا دیتا ہے اور تکلیفیں کم ہو جاتی ہیں ۔ہم اکثر کہتے ہیں کہ ہم سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی حالانکہ غلط بات برداشت کرنا ہی تو کمال ہے کیونکہ صیح بات تو برداشت نہیں بلکہ تسلیم کی جاتی ہے ۔ جب انسان اپنے آپ کو برداشت کرنا سیکھ جاتا ہے تو وہ کسی کو بھی برداشت کرلیتا ہے ۔
ایک نوجوان اپنی زندگی کے معاملات سے کافی پریشان تھا ۔ اک روز اسکی ایک درویش سے ملا قات ہو گئی تواپنا حال کہہ سنایا ۔ کہنے لگا کہ بہت پریشان ہوں۔ یہ دکھ اور پریشانیاں اب میری برداشت ہے باہر دکھائی دیتی ہیں ۔ لگتا ہے شائد اب میری موت ہی مجھے ان غموں سے نجات دلا سکتی ہے۔ درویش نے اس کی بات غور سے سنی اور کہا جاؤ اور نمک لے کر آؤ۔ نوجوان حیران تو ہوا کہ میری بات کا نمک سے کیا تعلق ہے لیکن پھر بھی نمک لے آیا ۔ درویش نے کہا پانی کے گلاس میں ایک مٹھی نمک ڈالو اور اسے پی لو۔ نوجوان نے ایسا ہی کیا تو درویش نے پوچھا اس کا ذائقہ کیسا لگا ؟ نوجوان تھوكتے ہوئے بولا بہت ہی خراب، ایک دم کھارا تو درویش مسکراتے ہوئے بولا اب ایک مٹھی نمک لے کر میرے ساتھ اس سامنے والی جھیل تک چلو۔ صاف پانی سے بنی اس جھیل کے سامنے پہنچ کر درویش نے کہا چلو اب اس مٹھی بھر نمک کو پانی میں ڈال دو اور پھر اس جھیل کا پانی پیو۔ نوجوان پانی پینے لگا، تو درویش نے پوچھا بتاؤ اس کا ذائقہ کیسا ہے، کیا اب بھی تمہیں یہ کھارا لگ رہا ہے؟ نوجوان بولا نہیں ، یہ تو میٹھا ہے۔ بہت اچھا ہے۔ درویش نوجوان کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا ہمارے دکھ بالکل اسی نمک کی طرح ہیں ۔ جتنا نمک گلاس میں ڈالا تھا اتنا ہی جھیل میں ڈالا ہے۔ مگر گلاس کا پانی کڑوا ہو گیا اور جھیل کے پانی کو مٹھی بھر نمک سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی طرح انسان بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق تکلیفوں کا ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔ جب تمھیں کوئی دکھ ملے تو خود کو بڑا کر لو، گلاس مت بنے رہو بلکہ جھیل بن جاؤ۔ اللہ تعالی کسی پر اس کی ہمت سے ذیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ اس لئے ہمیں ہمیشہ یقین رکھنا چاہیے کہ جتنے بھی دکھ آئیں ہماری برداشت سے بڑھ کر نہیں ہوں گے۔
کہتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی کمزوری شرافت ہوتی ہے جس کا فائدہ ہمیشہ کم ظرف لوگ اٹھاتے ہیں ۔انسان کی پہچان اس کا ظرف ہوتا ہے اور اعلیٰ ظرفی برداشت پیدا کرتی ہے ۔ظرف کو ہم باطنی ہمت سے تعبیر بھی کر سکتے ہیں ۔انسان کا باطنی رزق جس کاسے میں وصول ہوتا ہے اسے کاسہ یا ظرف کہا جاتا ہے ۔اعلیٰ طرف اپنی صلاحیتوں کا خراج نہیں مانگتے نہ وہ معاشرے پر بوجھ بنتے ہیں بلکہ وہ تو معاشرے کا بوجھ بانٹنے والے ہوتے ہیں ۔وہ لوگوں کی کوتاہیوں اور لاپروائیوں کو نظر انداز کرنے کی اور انہیں معاف کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں اس لیے برداشت کی نعمت سے بھی مالا مال رہتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ برداشت کرنے کی صلاحیت بھی اللہ کسی کسی کو عطا فرماتا ہے ۔
ہمارے ملک کا معاشرہ گزشتہ کئی سالوں سے عدم برداشت کے خوفناک اضافے اور نفسا نفسی میں مبتلا نظر آتا ہے ۔بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوت برداشت ختم ہو چکی ہے ہمارے ظرف کا پیالہ بھر چکا ہے اور صبر رواداری جیسی صفت معاشرے سے عنقاہو چکی ہے ۔ہر فرد دوسرے کو برداشت کرنے کی بجاۓ کھانے کو دوڑتا ہے ۔ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ جو وہ چاہے اسے مل جاۓ ۔یہ جو آج ہر فرد بلاوجہ ٹینشن کا شکار نظر آتا ہے ۔اسکی وجہ تعلیم کی کمی کے ساتھ ساتھ وہ معاشرتی اور سماجی نا ہمواریاں بھی ہیں جو انسانی ظرف کا پیالہ لبا لب بھر دیتی ہیں ۔ان میں سب سے بڑی وجہ وسائل پر چند لوگوں کا قبضہ ہے جسے عام آدمی اپنے ساتھ ناانصافی تصور کرتا ہے ۔راہ چلتے پانچ بےگناہ افراد کو نشہ کی حالت کچل کر وکٹری کا نشان بنانا یا بےگناہ پولیس والوں کو قتل کرکے جشن منانا ہماری ذہنی پسماندگی کا منہ بولتا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے ؟ گناہ اور غلطی کا احساس نہ ہونا اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمارے ظرف کے پیالے لبالب بھر چکے ہیں یہ سب احساس کمتری کی بدترین مثالیں ہیں اور اس جانب اشارہ ہے کہ برداشت کی قوت ختم ہو چکی ہے کیونکہ کہ آج ملک کی اشرافیہ کے بیس فیصد افراد نے باقی اسی فیصد کے حقوق پامال کر رکھے ہیں ۔اب یا تو اشرافیہ بڑے ظرف کا مظاہرہ کرے اور یہ بوجھ بانٹ لے یا پھر باقی اسی فیصد افراد برداشت اور صبر کا دامن پکڑے رکھیں اور قدرت کے فیصلے کا انتظار کریں ۔کیونکہ برداشت کرنا بزدلی نہیں بڑائی ہے بلکہ اچھی زندگی کا اہم اصول ہے جس شخص کے پاس ظرف کا بڑا کاسہ اور قوت برداشت ہے وہ کبھی نہیں ہار سکتا ۔ حضرت واصف علی واصف کہتے ہیں کہ آپ برداشت کرنا سیکھ جاو تو ڈئپریشن ختم ہو جاۓ گا ۔کہتے ہیں کہ ظرف برداشت سکھاتا ہے اور برداشت صبر کی نعمت عطا کرتا ہے اور بےشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔