تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
صوفیا نے افسانوی قصوں کو شاعری کی شکل میں پیش کر کے بہت بڑا کام کیا ہے۔ ان قصے کہانیوں کی کیا تاریخی اہمیت ہے یہ تو تاریخ دان ہی جانتے ہیں تاہم ان کو لے کر مذکورہ صوفی شعراء نے لوگوں کو نہ صرف محظوظ کیا ہے بلکہ ان کی تعلیم وتربیت کرنے کا بھی حق ادا کیا ہے۔ بظاہر یہ لو سٹوریز ہیں لیکن ان میں اور بھی بہت کچھ ہے بلکہ بہت ہی کچھ ہے۔ جب تک میں نے سورہ یوسف ترجمہ کے ساتھ نہیں پڑھی تھی اور مولوی غلام رسول کا قصہ یوسف زلیخا کا ایک ہی شعر سنا تھا(یوسف پچھے دس زلیخا کدر گئی جوانی۔۔۔کہے زلیخا عشق ترے تے کر چھڈی قربانی) اس وقت تک دیگر قصوں کی طرح قصہ یوسف زلیخا بھی ایک لو سٹوری لگتی تھی یکطرفہ محبت کی کہانی اور وہ بھی مولوی غلام رسول کی زبانی۔ اللہ اعلم۔ پھر میں نے قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا شروع کیا اور جب سورہ یوسف پر پہنچا تو مجھ پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ یہ محض ایک قصہ نہیں ہے بلکہ قرآن مجید نے تو اس کو احسن القصص قرار دیا ہے اور احسن القصص کے مطالب ومعانی کا احاطہ اس کتاب مبین کی فصاحت وبلاغت جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ قرآن سے بڑھ کر کوئی تاریخ کی مستند کتاب نہیں ہے اور یہ سورہ ایک پیغمبر کی داستان حیات ہے۔ مستند تاریخی واقعہ ہے اور یہ بھی قرآن کا اعجاز ہے کہ اس قصے کو سنا کر انسان کو ایک نہیں بیسیوں سبق دیئے گئے ہیں شاید اسی لئے میاں محمد بخش نے کہا تھا(قصے ہور کسے دے اندر درد اپنے کجھ ہوون۔۔بن پیڑاں تاثیراں ناہیں بے پیڑے کد روون)۔ احسن القصص کی بدولت اللہ تعالی نے انسان کے سامنے زندگی کے تلخ حقائق رکھ کر انسان کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے اور پھر کہانی کے تسلسل سے انسان کی مکمل تعلیم وتربیت کی گئی ہے۔ عبادات و معاملات کا ایک جامع پروگرام ہم سب کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ (عشق نیں آن کے چکر بدھا کھیڈاں بھلدیاں بھلدیاں بھل گئیاں) کے مصداق جب زلیخا کی نظرحسن یوسف پر پڑتی ہے تو عزیز مصر کی عزت و وقار کا خیال اس کے دل سے کوچ کرجاتا ہے۔ سرکاری شان وشوکت ایک خواہش کے سامنے ملیا میٹ ہو جاتی ہے اور کامیاب خانگی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور پھر عشق اور مشک کب چھپتا ہے یوسف پر حملہ ہوتا ہے ویسے تو آج کے دور کی زبان میں اس کو جنسی ہیراسمنٹ کہتے ہیں اور شیوہ پیغمبری کا عملی مظاہرہ۔ یوسف سرخرو ہوتا ہے اور زلیخا مایوس، ناکام اور نامراد۔ عورتوں کے مکر۔ خدا کی پناہ اور پھر یوسف پابند سلاسل۔ پوری انسانیت میں نبی کا ممتاز ہونا۔ بادشاہ کا خواب دیکھنا اور اس خواب کی تعبیر بتا کر یوسف کا بری الذمہ قرار دیا جانا اور زلیخا کا سرنڈر کر کے اپنی پوری جوانی یوسف کے بارے میں سوچتے سوچتے گزار دینا۔ یوں جوانی کا گزار دینا لو سٹوری کی کلائمکس ہے۔ یوسف زلیخا کا یکجان ہونا اس پر حتمی رائے کے لئے مولوی غلام رسول کی شاعری سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ماں جائے کتنے قریب ہوتے ہیں اور بھائی بھائیاں دیاں باہواں۔ استثنیات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ شریکا ہمارے کلچر کی ایک اہم چیز ہے اور اس کی پوری کہانی کی جھلک بھی ہمیں برادران یوسف کے کرداروں میں نظر آتی ہے۔ حسد،بغض ،حرص اور لالچ انسان کو کس حد تک گرا دیتا ہے کہ آپ اپنے ہی بھائی کو لے جا کر کنویں میں دھکا دے دیتے ہیں اور پھر تقدیر کا ایک اپنا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ یوسف فرش سے عرش کی طرف گامزن، یعقوب شدت غم سے نڈھال اور پھررو رو کر بینائی سے محروم۔ بھائی خوشی سے بغلیں بجابجا کر قحط سالی کا شکار اور یوں دربار یوسف میں بطور سائل اور بادشاہ کی کرم نوازیاں۔ ماں جایا اور سوتیلا ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ یوں اناج کی بوریوں میں برتن کا چھپ جانا، پھر برآمد ہونا اور پھر بنیامین کا بھائی کے پہلو میں بیٹھ جانا۔ یعقوب کا بیٹوں کو نصیحت کرنا کہ سب ایک دروازے سے داخل نہ ہونا۔ ہائے نظر بد اس کا بھی ایک کردار ہے اچھے خاصے ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ دیتی ہے۔ عامل تو خیر اس پر ٹھیک ٹھاک اپنا کاروبار چمکا لیتے ہیں۔ نظر بد سے بچنا ہی بہتر ہے خواہ اس کے لئے سر سے مرچیں یا سریاں وار کر ہی کیوں نہ پھینکنا پڑیں۔ بہتر یہ ہے صدقہ اتار دیاجائے کیونکہ صدقہ بلاوں کو ٹال دیتا ہے۔ ہاں البتہ بلا اگر عورت کی شکل میں ہو تو کردار یوسف کی ضرورت ہے اور ایسا کردار تعلیم وتربیت اور پھر اللہ کی مہربانی سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ اللہ جس پر مہربان ہوتا ہے اس کو زیور علم سے آراستہ فرماتا ہے اور سورہ یوسف میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ہر علم والے سے زیادہ علم جاننے والا بھی موجود ہے۔ اس کا واضح ثبوت حضرت موسی اور حضرت خضر کے معاملے میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے۔ انبیا کا جو سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوتا ہے اس کی تکمیل حضرت سیدنا محمد الرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہوتی ہے یوں انبیاء کے علم کا سلسلہ بھی نبی آخرالزمان پر مکمل ہو جاتا ہے۔ بعد از خدا بزرگ تو ای قصہ مختصر۔ یعقوب کے امتحان کے دن تمام ہوئے۔ کائنات کا تمام نظام حکم خداوندی کا محتاج ہے اور بظاہر بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر اور بینائی یعقوب اپنے بیٹے یوسف کے کرتے کے مس کرنے کی محتاج ٹھہرتی ہے اور بیناء باپ بیٹے کے دربار میں اور پھر وچھوڑے اور وصل کا عملی نمونہ۔ (بٹھاواں کول تے آکھاں بول وے ڈھول) حضرت یعقوب کا سب سے اوپر بیٹھنا اور پھر سب کا یوسف کو سجدہ کرنا۔ تہذیب وتمدن کی کہانی ارتقاء کے عمل سے گزرتی ہوئی جب خاتم النبیین تک پہنچتی ہے تو سجدہ صرف خدائے بزرگ وبرتر کے لئے روا ہو جاتا