ہم سب پاکستانی ہیں
منشا قاضی
حسب منشا
سائبان پاکستان اور عوامی محبت قابل مبارک باد ہے کہ وہ اپنے محدود وسائل اور اپنی بے بضاعتی کے باوجود اس قسم کے سیمیناروں کا اہتمام کرتی چلی أ رہی ہے یہ کام دراصل حکومتی سطح پر کرنے کے ہیں لیکن مخلصانہ احباب کے تعاون سے اس قسم کے اجتماعات اس امر کا کھلا ثبوت ہیں کہ ہماری قومی زندگی کے اندر رواداری ۔ مساوات ۔ انسانیت اور معاشرتی سطح پر اخلاقی اداب کی حکمرانی ہے قومی دھارے میں رہنے والی اکثریت اور اقلیت دراصل جسد واحد کی طرح سرگرم عمل ہے قومی استحکام کے ایک نہیں ۔ لا تعداد محاذ ہیں سیاسی محاذوں پر بحیثیت قوم تمام افراد اپنا فرض سرانجام دے رہے ہیں ان محاذوں میں اقتصادی سماجی معاشی زرعی اور صنعتی محاذ پر ہر شخص کی نگاہ ہے لیکن اصل بامقصد محاذ تعلیمی اور طبی محاذ ہے جہاں انسانیت پروان چڑھتی ہے اور جہاں اس کے دکھوں کا مدوا کیا جاتا ہے بلا شبہ یہ بات باعث صد افتخار ہے کہ تعلیمی محاذ ہماری قابل فخر مسیحی اقلیت نے بڑے گراں مایہ کارنامے سرانجام دیے ہیں یہ بات کہنے یا لکھنے کی شاید ضرورت نہیں کہ مسیحی دانشوروں اور عظیم اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے والوں میں پاکستان کے معماروں کی بڑی تعداد کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے خاص طور پر بابائے قوم حضرت قائد اعظم اور شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا نام لیتے ہوئے دل کو ایک سرور نصیب ہوتا ہے ہمارے دفاعی محاذ پر نام پیدا کرنے والے بڑے بڑے لائق جنرل بھی انہی درسگاہوں سے نکلے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب بحیثیت اقلیت تعلیمی میدان میں جن لوگوں نے اپنا قومی فرض ادا کیا ہے ان ہی میں ممتاز اہل علم کا تعلق مسیحی تعلیمی اداروں سے بیان کیا جاتا ہے مجھے اپنی تمہید میں تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی لیکن یہ بات میں پوری ذمہ داری سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی اسلامی ریاست نے اپنی اقلیتوں ہندو سکھوں مسیحوں اور پارسائیوں کے ساتھ جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال دوسرے کسی ملک میں پیش نہیں کی جا سکتی پاکستان کے قومی دھارے میں اقلیتوں کو ان کے سیاسی عمل کی راہ میں کوئی دشواری نہیں ہے موجودہ نظام میں انہیں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق ائین نے دیا ہے جبکہ پہلی حکومتوں نے مخلوط انتخاب کے تحت اقلیتوں کی نشستیں مخصوص کر رکھی تھی اور اسمبلیوں کے ارکان اقلیتی طبقے کے نمائندے موجود ہیں ۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی اقلیتوں کو پوری پوری ازادی حاصل ہے تاکہ وہ ملک کے استحکام میں ازادانہ طور پر اپنا تاریخی کردار سرانجام دے سکیں سائبان پاکستان اور عوامی محبت کے اشتراک سے مذہبی ہم اہنگی اور ہماری ذمہ داری ہم سب پاکستانی ہیں کے عنوان پر یہ سیمینار وقت کی اہم ضرورت تھی ۔ پیغام پاکستان پروگرام میں اج کا یہ پروگرام رواداری کی باد بہاری سے کم نہ تھا ۔ بشپ ڈاکٹر نعیم پرشاد کی زیر صدارت مہمان مقررین میں شعلہ و شبنم کا حسین امتزاج اپ مفتی سید عاشق حسین ایگزیکٹو ممبر قومی کمیشن برائے بین المذاہب مکالمہ جن کی گفتگو کی جستجو میں سامعین کی ارزو جاگ اٹھی اور اپ نے ہم سب پاکستانی ہیں کہ موضوع سے انصاف کرتے ہوئے پورے اختصار کے ساتھ مؤثر ابلاغ اور پورے اخلاص کی قندیلیں فروزاں کر دیں ۔
گلوں نے ا کر مستی میں گریباں چاک کر ڈالے
ایک بلبل چمن میں ہم نے غزلخواں ایسا بھی دیکھا ہے
بشپ ڈاکٹر نعیم پرشاد کے صدارتی کلمات اخوت و رواداری کی باد بہاری تھے۔ اپ کی مثبت سوچ کے بطن سے محبت کے زمز مے بہہ رہے تھے ۔ اور وہ سب پاکستانیوں کی خوشحالی اور ان کی عالمی منظر نامے پر عزت و توقیر کی کہکشاں دیکھ رہے تھے ۔ پروفیسر محمود غزنوی چیئرمین قومی امن کمیٹی برائے بین المذاہب ہم اہنگی دلوں میں عزم و ہمت کی شمعیں فروزاں کر رہی تھی ۔ قائد اقلیت جناب خالد گل پی پی پی کینیڈا کے صدر کا خطاب مساوی حقوق کی بازگشت تھا ۔ ممتاز موٹیویشنل سپیکر راؤ محمد اسلم مائیک پر ائے اور اپنی گفتگو کا بڑی بے ساختگی سے اغاز کیا اور اقلیتوں کے حقوق اور ان کے فرائض کے حوالے سے اختصار سے گفتگو کر کے بڑی چابک دستی سے تقریر کا اختتام کر دیا ۔سردار پرشانت سنگھ۔ سردار راوندر سنگھ کی ثقافت کا حسن ماحول میں چاندنی بکھر رہا تھا انہوں نے اپنی بے تکلف گفتگو کی ارزو سے سامعین کو اپنا اسیر بنا لیا ۔ سالویشن ارمی کے کیپٹن اصف مل ایک صاحب دل انسان ہے اور اپنی برادری کے بارے میں اندیشہ ائے دور و دراز میں گرفتار رہتے ہیں ان کی باتیں سننے کے لیے ان سے مل کر بات کرنا ہوگی ۔ عوامی محبت کے سربراہ جن کی دورس نگاہ کا یہ اعجاز ہے کہ انہوں نے وقت کی تنگ دامانی کا جواز پیدا کرتے ہوئے خاکسار کو تشنہء تقریر رکھا ۔ میری بولنے والی زبان سننے والے کانوں کی محتاج تھی اور اس وقت میری لکھنے والی انگلیاں قارئین کی انکھوں کی محتاج ہیں ۔ صاحبان عالی مرتبت ۔فضیلت ماب صدر ذی وقار بشپ ڈاکٹر نعیم پرشاد میری مسیحی بہنوں اور بھائیو اگر اپ ہمارے پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائیں اپ مسیح رہ سکتے ہیں لیکن ہمارے ایمان کی نزاکت کا یہ عالم ہے کہ اگر ہم ابن مریم پر ایمان نہ لائیں تو ہم مسلمان نہیں رہ سکتے۔
ذکر اس غیرت مریم کا جب اتا ہے فراز
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں
سیمینار کی میزبانی اور سامعین یہ سامنے اقبال ڈنییل کھوکھر کی طبع کی روانی دریائے حیرت کو حیرت میں ڈال رہی تھی ۔
شورش کاشمیری کے ایک شعر میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ
دیکھ کر جس کو میرا شوق جواں ہوتا ہے
ایسے شخص پہ اقبال کھوکر کا گماں ہوتا
اخر میں دو شخصیات کا اگر ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی ایک وہ جن کے بارے میں خالد گل فرماتے ہیں کہ میرا