قلم کے شہسوار عاصم نواز خان طاہرخیلی ( تحصیل غازی ہری پور )

تحریر: فخرالزمان سرحدی ( ہری پور )

پیارے قارئین! آج کا کالم ایک ایسی ہستی کے نام ہے کہ جو اپنی ذات میں ایک انجمن، ہم ہی کو جرأت اظہار کا سلیقہ ہے کے پیکر اور قلم کے شہسوار محترم عاصم نواز خان طاہرخیلی ہیں۔ آپ معلم کے روپ میں روحانی باپ اور ادب و صحافت کے خیابان میں اک شگفتہ پھول ہیں۔ موصوف کی پرکشش شخصیت کسی تعارف اور شناخت کے محتاج نہیں بلکہ آپ حرمت قلم کے پاسبان کے نام سے اک پہچان بنا چکے ہیں۔ موصوف کی سوانح حیات ان کی پہچان کے لیے ایک بہت بڑا منبع ہے جس میں ہر جھلک مہر درخشاں کی مانند ہے۔
کھڑی گندگر کے نامور قبیلہ طاہرخیلی کے یہ چشم چراغ 18 ستمبر 1976 کو بمقام گاؤں خالو پیدا ہوئے۔ موصوف کا آبائی گاؤں (ددھیال و ننہال) سلم کھنڈ ہے جسکا مختصر سا تذکرہ بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ جہاں کی مٹی سے آپ کی تشکیل ہوئی اور اس کے اثر سے زندگی کو سیکھتے ہوئے اب آپ صحافت و ادب کی دنیا میں کامیاب سفر کا اعزاز رکھتے ہیں۔۔
سلم کھنڈ ہزارہ کا ایک قدیم تاریخی گاؤں ہے جسکی مٹی بڑی زرخیز ہے۔ یہاں عالم فاضل شخصیات نے جنم لیا۔ اسی گاؤں کے سپوت عاصم نواز طاہرخیلی نے بطور معلم، کالم نگار, مصنف، تاریخ دان، شاعر اور سماجی کارکن اپنی بےشمار خداداد صلاحیتوں کا لوہا اپنی محنت لیاقت اور قابلیت کے زریعے منوایا۔
ایف جی پرائمری سکول تربیلہ ڈیم کے امتحانات میں وفاق ٹاپ کیا اور ہر جماعت میں ہمیشہ نمایاں طالب علم رہے۔ آپ گزشتہ 28 سال سے محکمہ تعلیم میں بطور معلم خدمات انجام دے کر قوم کی خدمت کا مقدس فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ آپ کو اعزاز حاصل ہے کہ پچاس سے زائد اخبارات میں اردو اور انگریزی زبان میں کالم لکھ چکے ہیں۔ یہی تو موصوف کا قیمتی سرمایہء ادب و صحافت ہے۔
آپ دو کتب کے مصنف ہیں اور ایک کتاب بطور معاون بھی لکھی۔ مزید دو کتب پر کام جاری ہے جو انکی علم دوستی کی واضح علامت ہے۔ ان کی تصنیف شدہ کتابوں کے نام “نقطہ نظر” اور “باباجی سلم کھنڈی” ہیں۔ ان کے علاوہ اک کتاب ” تاریخ قوم طاہرخیلی مع تفصیلی شجرہ نصب” میں بطور معاون ان کی خدمات کا اعتراف مصنف اپنی کتاب میں خود کر چکے ہیں۔
علاقے کی تاریخ پر لکھتے رہنا موصوف کا معمول ہے جسے مستقبل میں کتابی شکل دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ اپنے مورث اعلی طاہرخان باباؒ کی قبر بمقام پلائی شیرخانے تک گزشتہ چار سو سال میں پہلی بار رسائی ان کا قبیلہ کے لیے اک تاریخی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ کھڑی گندگر اور ھرو کے دیہات، زیارات اور اپنے قبیلہ کی تاریخی شخصیات پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ اپنے جد امجد فتح خان باباؒ کی قبر کی تزئین و آرائش کے لیے پہلی آواز اور ان کے مرشد میاں حاجی رحمان باباؒ پر تحقیقی کام بھی آپ سے پہلے درست خطوط پر کوئی نہ کر پایا۔
عاصم نواز طاہرخیلی بطور تحصیل صدر انٹرنیشنل رائیٹرز فورم پاکستان خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ آپ کی تصنیف “نقطہ نظر” کو لائبریری آف کانگرس کے لیے انٹرنیشنل رائیٹرز فورم اور بزم مصنفین ہزارہ کی طرف سے منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
آرٹس کونسل راولپنڈی اور ادارہ اکادمی ادبیات اسلام آباد میں انٹرنیشنل رائیٹرز فورم کی جانب سے آپ کی کتب کو شیلڈز اور اسناد سے نوازا گیا۔ پریس کلب ہری پور میں بزم مصنفین ہزارہ کی جانب سے دونوں کتب کو اعزازی اسناد ملیں۔
تحصیل غازی میں آرٹس کونسل غازی (بزم سخن ورانِ غازی) کا قیام بھی آپ کی کوششوں کا نتیجہ تھا جسکے تحت اب بھی مشاعروں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ آپ پاکستان فیڈرل یونین آف جنرلسٹس کے اعزازی ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات کے اعزازی نمائندے بھی ہیں۔۔
المختصر موصوف گندگر کے کوہستانوں اور کھڑی و ھرو کے میدانوں میں قلم کے سفیر کی حیثیت سے درخشاں ستارے کی مانند ہیں۔ آپ کی زندگی تو اک روشن مشعل کی مانند ہے جو روشنی کے اجالے پھیلانے کے لیے صبح و شام کوشاں ہے۔ اس کالم میں موصوف کی زندگی کے گوشوں اور قلمی خدمات کا تذکرہ اس لیے ضروری خیال کرتا ہوں کہ موصوف عرصہ دراز سے خیابان ادب و صحافت کے پودوں کی آبیاری خون جگر سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ خوبی رب کائنات نے موصوف کو عطا فرمائی ہے کہ جب لکھنے پر آئیں تو پرورش لوح وقلم کا حق ادا کرتے ہیں۔ صحافت اور کالم نگاری کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو موصوف حق اور سچ لکھنا فرض سمجھتے ہیں۔ کبھی خواہشات کے سمندر کی موجوں کی نذر نہیں ہوتے بلکہ ثابت قدمی کا بھرم برقرار رکھتی اک منفرد پہچان کے مالک ہیں۔ بقول شاعر:۔

کچھ تو ہے جو تجھے ممتاز کرے اوروں سے
جان لینے کا ہنر ہو کہ مسیحائی ہو

قارئین کے دل کی دنیا میں اپنی قیمتی تحریروں سے رونق پیدا کرنے کے آرزو مند ہیں۔ درد مندوں کی بستی میں رہ کر ان کی آواز بلند کرنا معمولِ حیات ہے۔ ایک بہترین کالم نگار کے روپ میں خدمتِ انسانیت کے شاہکار ہیں۔ اللہ کرے زور قلم میں روانی کا دریا بہتا رہے۔ دکھی لوگوں کی اپنی تحاریر کے زریعے دل جوئی کرنے میں کبھی کوئی دقیقہ و فروگذاشت نہیں کیا بلکہ ثابت قدم رہنا اپنی منزل سمجھا اور اب بھی اسی اسلوب پر مصروف عمل ہیں۔ آپ ہمہ وقت یہ احساس اجاگر کرنے کے آرزومند ہیں کہ ” زندگی انسان کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں”۔ موصوف تو اس بات پر بھی اداس رہتے ہیں کہ ” اے شمع زندگی کیوں جھلملا رہی ہے”۔ محترم عاصم نواز طاہرخیلی دل کے آنگن میں تمناؤں کے پھول سجاۓ ہر چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی خوبی تو آپ کو شعراء,ادباء اور کالم نگاروں کے حلقوں میں منفرد رکھتی ہے۔ اختتام پر کسی شاعر کا مندرجہ زیل نثری دعائیہ قطعہ میری طرف سے عاصم نواز طاہرخیلی کیلیے:

میری اللہ تجھے واسطہ پیارے محمدؐ کا
میرے دوست کو ہر غم سے بچا کے رکھنا
تجھے حسینؓ

Comments (0)
Add Comment