تھانہ کچہری کلچر

تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی (غازی/ہری پور)

مجھے اک دو بار کچھ معاملات کے سلسلے میں تھانہ کچہری سے واسطہ پڑا۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ ہم عوام کی اکثریت تھانہ کچہری کے معاملات سے قطعاََ ناواقف ہے اور ان جگہوں سے دور بھاگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں قوانین کی باریکیوں کو سمجھنے والی اقلیت نے اکثریت کو کھیل اور قانون کو رکھیل بنا رکھا ہے۔
معاشرے پر نظر دوڑائیں تو آپ کو تھانہ کچہری کی سیاست کا پلڑا ہی بھاری نظر آئے گا۔ جو سیاسی نمائندے اور شخصیات تھانہ کچہری کے معاملات میں ماہر اور دے دلوا کر کام نکالنے کے ماہر ہوں لوگ انہی کو عزت و مقام دیتے ہیں۔
چونکہ عوام کی اکثریت اپنے حقوق اور ان کے تحفظ پر مشتمل قانونی باریکیوں سے آگاہ نہیں ہوتی اس لیے قوانین سے کھیلنے والوں کو کُھل کر کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اوپر سے لے کر نیچے تک نوسربازی اسی لیے کامیاب ہے کہ حکمران قوانین کی آڑ لے کر بےقاعدگیاں اور دیگر مداری قانون کی باریکیوں، کمزوریوں اور عوام میں شعور کی کمی کا فائدہ اٹھا کر اپنی دکانیں چلاتے ہیں۔
ماضی میں سیاستدان اپنی مرضی کے پولیس افسر لگا کر اپنے کام کرواتے تھے۔ تھانے دار کی تعیناتی سیاسی فوائد اور مخالفین کو دبانے کے لیے کی جاتی تھی۔ اس طرح ظلم اور ناانصافی کو رواج ملا اور لوگوں میں پولیس پر اعتماد نہ رہا۔ ہمارے معاشرے کی تنزلی کی بنیادی وجہ انصاف کے معاملات میں اسی ناانصافی کا دور دورہ ہونا تھا۔ تھانہ کچہری کلچر میں رشوت، شفارش، ظلم اور نا انصافی نے ہمارے معاشرے کو اس درجے تک تباہ کر دیا ہے کہ اب سنبھلنے میں انتہائی دشواری کا سامنا ہے۔
کوئی کلچر بھی دو چار برس میں پروان نہیں چڑھتا۔ تھانہ کچہری کلچر بھی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ پورے برِصغیر پاک و ہند میں انگریز کے دور سے لے کر ابھی تک جَم کر موجود ہے۔ انگریزوں نے مقامی لوگوں پر قابو پانے کے لیے کوتوالی نظام شروع کیا جسے اب تھانہ کچہری کہتے ہیں۔ جس طرح وہ خود قانون سے ماورا رہ کر ہندوستانیوں پر حکومت کرتے تھے بالکل اسی طرح ان کی باقیات بھی 77 سال سے تھانہ کچہری کلچر کے زریعے عوام میں خوف کی فضا قائم کر کے حکمرانی کے مزے لے رہی ہیں۔ اس کلچر کا ذمہ دار کوئی ایک فرد نہیں ہوتا بلکہ اس حمام میں سیاست دان، بیوروکریسی اور خاص سے لے کر عام تک سب ہی اشنان کرتے ہیں۔پاکستان میں اب کچھ نہ کچھ تبدیلی آرہی ہے لیکن سالوں کا بگڑا ٹھیک ہونے میں ابھی کچھ وقت لے گا۔
یاد رکھیں کہ تقریبا ہر شہری کو زندگی میں اک آدھ بار تھانے کچہری سے ضرور واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر شہری کو بنیادی قوانین سے ضرور آگاہی ہو۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم میں قانون کی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو تھانے و عدالتی کارروائی کا بالکل بھی علم نہیں ہوتا ،اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے نصاب میں مکمل قوانین بشمول ایف آئی آر، قتل، چیک ڈس آنر، فراڈ کے قوانین، ضمانت کے قوانین, توہین رسالت کا قانون، منشیات کے قوانین، ایس ایچ او کے اختیارات، مقدمہ درج کروانے کا طریقہ کار، اغوا کے قوانین، چوری، ڈکیتی، پولیس رپورٹ کے قوانین، ٹرائل، استغاثہ کے قوانین، کرپشن کے قوانین، ڈی این اے، جیل کے قوانین، قیدیوں کے حقوق، زنا و ریپ کے قوانین، چالان، جسٹس آف پیس، حقِ دفاع کا قانون، پولیس کے فرائض و ذمہ داری، قبر کشائی، دہشتگردی، ہوائی فائرنگ کے قانون اور کسی کا راستہ بند کرنے کی سزا وغیرہ کے قوانین کو شامل کیا جائے تاکہ عوام میں شعور بیدار ہو اور وہ مزید بے وقوف بننے اور لٹنے سے بچ سکیں۔

Comments (0)
Add Comment