منشا قاضی حسب منشا
امرا کے گھرانوں کے بچے بیچینیوں مایوسیوں اور زہنی الجھنوں کا شکار کیوں ہیں ؟ اس لیے کہ وہ بزرگوں کی صحبت سے بہت دور ہیں۔ بزرگوں کی صحبت یونیورسٹی کی ڈگری سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ بری سوسائٹی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے اور وہ غلط راہ پر چل نکلتے ہیں ۔ ڈاکٹر شاھد صدیق کا قتل اس کا زندہ ثبوت ہے بری سوسائٹی سے پیغمبر بھی اپنے بیٹے کو نہیں بچا سکتا ۔
صحبت بد میں نوح کا بیٹا
شان پیغمبری کی کھو بیٹھا
ہم زور دیتے ہیں اپنے بچوں پر تعلیم یافتہ ہو جائیں لیکن ان کی تربیت میں کجی رہ جاتی ہے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم 10 فیصد اور تربیت 90 فیصد ہونی چاہیے ۔ لاڈ پیار بچوں کو بگاڑ دیتا ہے اور وہ پھر قیوم بن جاتے ہیں اور قیوم سے قاتل بن جانا معمولی بات ہے ۔ فیض کی نظر سے محروم نسل نو گمراہی ۔ بے حیائی اور برائی کے بحر اوقیانوس میں ڈوبتی چلی جا رہی ہے ۔ کتاب سے دوری اور موبائل کی قربت نے والدین کو کربناک اور اذیت ناک صورتحال سے دو چار کر دیا ہے ۔ والدین کا بھی یہی حال ہے کہ وہ خود بھی موبائل پر ساری ساری رات فلمیں دیکھتے رہتے ہیں ۔ موبائل اپ کی سوچ کو گندا پر اگندا کرتی ہے اور پاکیزگی کی بھی اس میں کافی گنجائش موجود ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اپ انگور کھانا چاہتے ہیں یا انگوروں میں سے شراب نکالنا چاہتے ہیں جو لوگ شراب نکال رہے ہیں وہ نشے کی حالت میں اپنے والد جیسے رشتے کو بھی نہیں پہچان سکتے اور انہیں 13 گولیاں مروانے کے لیے کروڑوں روپے کرائے کے قاتلوں کو دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔دیار غیر میں اپنے والد کے خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت کو رائیگاں کر دیتی ہے ۔ اکبر الہ ابادی یہ فرزند لندن میں جب اپ نے والد اور والدہ کو بھول گئے تو اکبر الہ ابادی نے اپنے بیٹے کو ایک خط لکھا جو منظوم تھا انہوں نے لکھا ۔
لندن کو چھوڑ لڑکے اب ہند کی خبر لے
بنتی رہیں گی باتیں اباد گھر تو کر لے
واپس جو تو نہیں اتا کیا منتظر ہے اس کا
ماں خستہ حال ہو لے اور باپ بیچارہ مر لے
مغرب کے مرشدوں سے تو پڑھ چکا ہے بہت کچھ
اب پیران مشرقی کی بھی فیض کی نظر لے
شکر ہے خدا کا کہ اکبر ابادی کا بیٹا واپس اگیا اور باپ کو سکون مل گیا سعادت مندی اس کی سرشت میں موجود تھی ۔ جس کا ذکر علامہ اقبال نے ایک شعر میں بھی کیا ہے
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو اداب فرزندی
اج والدین اپنے بیٹوں سے کیوں ڈرتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے انہیں جدید عہد کی سہولتوں اور ضرورتوں سے تو سرفراز کیا ہے مگر انے والی دائمی زندگی کے بارے میں نہیں بتایا کہ اگر وہ والدین کی فرمانبرداری کے بارے میں جانتے تو تو سعادت مند بیٹے پیدا ہوتے ۔ قیوم کی والدہ ایک بہت بڑے باپ کی بیٹی ہے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب میں بھی ان کا ذکر کیا ہے ۔ ایک بہت بڑے قابل ڈاکٹر اور لاڈ اور پیار کرنے والے والد کو جس بیدردی سے باغی بیٹے نے قتل کیا ہے وہ دیدہ ء بینا کے لیے دیدہ عبرت ہے ۔ بری سوسائٹی اور بری صحبت اولاد کے لیے سم قاتل ہے اور پیغمبر بھی اپنے بیٹے کو بری صحبت سے نہیں بچا سکتا ۔ جس کی زندہ مثال حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا ہے ۔
صحبت بد میں نوح کا بیٹا
شان پیغمبری کی کھو بیٹھا
سوسائٹی کا اثر بے شک ایک بہت بڑا اتالیق ہے لیکن وہ بچپن کی جبلی برائیوں کو رفع کرنے سے قاصر ہے ہم جب تک اس شجر سایہ دار کی طرف نہیں لوٹیں گے ہماری انے والی نسلیں ہوس و أز کے تپتے ہوئے صحرا میں جھلستی چلی جائیں گی انہیں کہیں بھی سکون نہیں ملے گا ۔ والدین کو اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر شاھد صدیق قیوم و تیمور کے صرف والد نہیں تھا وہ کئی یتیموں اور بیواؤں کا سہارا تھے قیوم نے صرف اپنے ساتھ زیادتی نہیں کی بلکہ سینکڑوں خاندانوں کے محسن سے بھی ان کو محروم کر دیا ۔ مرنے والے کی اچھی باتوں کو یاد رکھیں اور ان کی بری باتوں کو بھول جائیں ۔ 20 سال قبل میرا ان کے ساتھ تعلق رہا ہے میں نے انہیں ایک اچھا انسان پایا ۔ اور میرے ائینہ ادراک پر وہی شاہد صدیق موجود ہیں ۔ جن کی یاد میں ایک تقریب کا کوئی اہتمام کیا جائے گا ۔اللہ تعالی قیوم کو گمراہ کرنے والے دوستوں بچائے اور ہدایت فرمائے اور وہ ائندہ اس نوعیت کے جرائم کو فروغ نہ دیں اسی میں ان کا بھلا ہے ۔
پھول وہ شاخ سے ٹوٹا کہ چمن ویران ہے
اج منہ ڈھانپ کے پھولوں میں صبا روئے گی
مولا کریم مرحوم کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کو اپ نے جوار رحمت میں جگہ دے۔
اسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ ء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے