تحریر: خالد غورغشتی
آسمان سے باتیں کرتے برقی کھمبے اور ان کے گرد لپٹی لمبی تاروں کی قطاریں ہی قطاریں، یہ کسی قصبہ، گاؤں، شہر کی بات نہیں، اس مملکت کی بات جسے آزاد ہوئے ستر برس سے زائد بیت چکے۔ جن سے چرند ، پرند اور انس کوئی بھی ٹکرا جائے پل بھر میں جاں بحق ہو جائے۔
ان ہلاکت خیز تاروں کے سایے میں پلنے والی شُعلہ بیان قوم میں سیاست سے لے کر مذہب تک ہر طبقے میں مقررین تھے۔ اگرچہ لگتا تھا ظلم کے خلاف سب کی آواز دب چکی ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کی دعوے دار قوم، بجلی کے کھمبوں اور تاروں کے نیچے سے نکلنے کے لیے تیار نہ تھی۔ ان کی باتیں اور بُلند و بالا دعوے آپ سنتے تو کب کے یورپ سے ہوتے ہوئے چاند پر پہنچ جاتے۔
ان کی زندگی کا مقصد پونڈ اور ڈالر کا حصول تھا، وہ زندگی یورپ کی اور موت مدینے کی چاہتے تھے۔ وہ بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں کبھی جی کبھی مر رہے تھے لیکن انھوں نے جگہ جگہ درخت لگانے کی بجائے سولر سسٹم لگانے شروع کر دیے تھے۔ شدید گرمی میں جب کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی اور آسمان پر بادل ہوتے تو سولر سسٹم نہ چلنے پر یہ آگ بگولا ہو کر راستوں اور چوراہوں میں بیٹھ کر بجلی آنے کا انتظار کیا کرتے۔
پہلے برقی کھمبوں کا گھر کے باہر مسئلہ تھا اب ہر گھر کی چھت پر دس دس من کا سولر پینل سب کی جگ ہنسائی کا سبب تھا۔
یہ لوگ عالی شان گھروں، مدارس، مساجد، بیٹھکوں، حجروں، کوٹھیوں، بنگلوں اور فلاحی اداروں پر پانی کی طرح پیسہ بہا دیا کرتے تھے مگر علاقے کے مزدوروں کے لیے کارخانہ، نوجوان کےلیے ہُنر مندی کا ادارہ، بچیوں کے لیے دینی و دنیاوی امتیاز کا ادارہ اور خواتین کے لیے ہسپتال نہیں بناتے تھے، کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ اگر ان کے اردگرد کے لوگوں کو بنیادی سہولیات میسر ہو گئیں تو ان کی ٹرٹری اور نیک نامی ختم ہو جائے گی۔
بجلی و گیس کے بلوں سے عوام روزانہ کہیں نہ کہیں خودکُشیاں کر رہے تھے۔ کہیں ان کے پاس گھروں، کہیں دُکانوں کے کرایے تو کہیں آٹے کے لیے پیسے نہ تھے۔
کبھی کہیں سے قرضہ کبھی کہاں سے قرضہ لے کر، قرضوں کے سایے میں پلنے والی قوم کی ہر ماہ بجلی و گیس کے بل دیکھ کر چیخیں نکل جاتی تھیں۔
بجلی تھی بھی تو کیسی؟ ہر دو گھنٹے بعد لوڈ شیڈنگ تھی اور طرفہ تماشا یہ کہ کبھی ڈیم آتی کبھی اتنی زیادہ کہ بلب، اے سی، فریج، پنکھے، استری، مشین وغیرہ سڑنا روزانہ کا معمول بن چکا تھا۔
یہ پچیس کروڑ بے بس تماشائی اس نظام کا ذرا بھی تو نہ بدل سکتے تھے۔ البتہ پہلے گھر گھر اور اب سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کی عزت کا خوب جنازہ نکالتے۔ سب اس نظام کو دو چار منٹ برا بھلا تو کہتے تھے؛ لیکن پھر خود ہی اس کی لپیٹ میں دھنس جاتے تھے، کیوں کہ چوری چکاری، رشوت، نقل، کرپشن اور لوٹ مار سے ہی ان کا نظامِ زندگی چل رہا تھا۔
شغل میلوں مثلاً کتوں کی لڑائی، بیلوں کی دوڑ، تیتروں کی لڑائی، گھوڑوں کی دوڑ، کرکٹ میچز، والی بال، لڈو، کبوتروں کی بازی سنوکر اور فٹ بال پر یہ کروڑوں روپے جوئے پر لگا دیا کرتے۔ جب ان کی پسندیدہ ٹیم ،کھلاڑی یا جانور جیتا تھا تو یہ یاروں و دوستوں میں لاکھوں روپے کھانے کی دعوتیں کیا کرتے تھے اور پڑوس میں غریب رشتہ داروں کو بھوکا اور تنگ دست دیکھ کر تمسخر اُڑایا کرتے۔
اس قوم نے دین پر عمل کرنے سے زیادہ مسلک پر چلنا شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے مذہبی منافرت جگہ جگہ عام تھی، بھائی اپنے سگے بھائی سے مسلک کی بنیاد پر ناراض ہو کر خوشی غمی پر ہی اکھٹے نظر آیا کرتے. ان لوگوں کی متاع حیات پیٹ پوجا تھی۔ اس لیے کبھی وہ ظالم حکمرانوں، کبھی نظام تو کبھی انگریزوں کو گالیاں دیا کرتے تھے اور بہ وقت ضرورت سب کے ساتھ گھل مل جایا کرتے تھے۔
ان کے انجینئر اور ڈاکٹر لوگوں کو دین سیکھاتے، پروفیسر اور لیکچرار بیرون ملک بھاگنے کی ترغیب دیتے اور دینی و سماجی طبقے کے لوگ یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر پیسے کمانے کی غرض سے تشریف لاتے تھے۔
اس ہجوم نما قوم میں روز بہ روز اضافہ ہونے کے باوجود ملک نے کسی شعبے میں ترقی نہ کی تھی۔ شریف کا اس ملک میں جینا حرام تھا اور چالاک مافیاز کے ہم نشین تھے۔
مذہبی پسماندگی کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں کتابیں پڑھنے والوں نے زندگی میں ایک بار بھی تفسیر قرآن نہیں پڑھی تھی کیوں کہ اُنھیں ڈرایا گیا تھا کہ خود سے پڑھو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ یوں مسلمان دین سے دور تو تھے ہی دین سے بدظن بھی ہونے لگے۔ اسی کی غمازی کرتے ہوئے اقبال نے کیا خوب فرمایا:
شور ہے، ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاری، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود
آج گلی گلی میں مساجد و مدارس ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت جمعہ کو ہی مساجد کا رخ کیوں کرتی ہے اور عین خطبے کے وقت کیوں پہنچتی ہے۔ اقبال کیا خوب ان حالات کی ترجمانی کر گئے:
وعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذان روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے
ہماری نسلیں کس طرف جا رہی ہے، سب کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف سوشل میڈیا کی یلغار میں نوجوان بہتے جارہے ہیں تو دوسری طرف ہماری مسجدوں کی ویرانی لمحہ ء فکریہ ہے۔ مساجد و مدارس ہم نے بہت بنا لیے ہیں، اب ہمیں شخصیات بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم شخصیات نہیں بنائیں