ن و القلم۔۔۔مدثر قدیر
گزشتہ دنوں لاہور میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ وفاقی حکومت ورکر ز دوست حکومت ہے جس نے کم سے کم تنخواہ 37000رمتعین کی ہے جو سرکاری اور غیر سرکاری ادارہ اپنے ورکرز کوکم سے کم 37000 اجرت نہیں دے گااس کے خلاف کاروائی کی جائے گی مگر بات ہے چراغ تلے اندھیرے کی ہم 25سے زائد ورکر ریڈیو پاکستان لاہور میں طویل عرصے سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں مگر آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ ان کو ماہانہ تنخواہ 17000ملتی ہے جبکہ میرے سمیت کچھ کی تعلیمی قابلیت کے حوالے سےتنخواہ 30ہزار کے قریب ہے ۔وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے سیشن میں ورکرز کی کم از کم تنخواہ 37000کرنے کا جو اعلان بجٹ سیشن میں کیا اس سے ہم جو وزارت اطلاعات ونشریات کے ذیلی ادارے ریڈیو پاکستان میں کنٹریکٹ ملازمین کی حثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں وہ ابھی تک مستفید نہیں ہوسکے بلکہ اس سے قبل ماضی میں بھی بڑھائی گئیں تنخواہیں جو ہمارا جائز حق تھیں ان سے ہمیں محروم رکھا گیا۔جناب وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ صاحب یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت ورکر ز کی مشکلات کا خیال کرئے اور ان کےلیے کم سے کم اجرت میں اضافے کا اعلان کرئے مگر اسی حکومت کے ادارے کے بابو اس حکم پر عمل درآمد ہی نہ ہونے دیں اور غریب ورکرز کے خاندان کو بھوک اور مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کریں کیا یہ کھلا تضاد نہیں ۔جناب عالی 2018میں لاہورہائی کورٹ نے ہمیں کنڑیکٹ ملازمین کا سٹیٹس دلوایا اور اپنے آرڈر میں ہم پٹشنرز کو کنٹریکٹ ملازمین کہا جو مختلف حثیتوں میں ریڈیو لاہور میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور ریڈیو پاکستان کے اعلی عہدیداروں کو ہمارے مسائل حل کرنے کی ڈائریکشن دی مگر معاملہ آج تک جوں کو توں ہی ہے ہمارے مسئلہ کا حل نہیںنکالا گیا اسی دوران ہم نے دوبارہ ایک ضمنی رٹ 2021میں دوبارہ ہائی کورٹ میں دائر کی جس میں کہا گیا کہ ہم کنٹریکٹ ملازمین ریڈیو پاکستان لاہور میں عرصہ دراز سے کام کررہے ہیں مگر ہمیں حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم سے کم اجرت سے محروم رکھا جارہا ہے اس حوالے سے کچھ شواہدات بھی پیش کیے گئے جس پر عدالت نے ریڈیو پاکستان کو ڈائریکشن جاری کیں کہ تنخواہ کی مد میں حکومت کی جانب سے کیا گیا اضافہ ان ملازمین کا حق ہے اور ان کو یہ جائز حق فراہم کریں مگر ریڈیو پاکستان کے ناخلف بابو جو طاقت کے نشہ میں چور ہیں انھوں نے اس آرڈر کو ماننے سے انکار کردیا جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان ہیڈ کوارٹر کےاعلی عہدیدار ڈاکٹر غنی الرحمان ہمارے لیے مختلف طریقوں سے مسائل کھڑے کرتے آرہےہیں جن میں ہر 6ماہ بعد ایک خط اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان لاہور کو بجھواتے ہیں کہ ان ملازمین کو نکالنے کے لیے اپنی مثبت رائے دیں اور اس کے بعد ا ن کی رائے کو جواز بنا کر ہمارے لیے دفتر کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں جو ظلم ہے ۔جبکہ عدالت عالیہ کا کلئیر آرڈر ہے کہ ان ملازمین کو مستقل کیا جائےجیسے ہیڈکوارٹر میں کنٹریکٹ پر تعینات رضوانہ خان نامی خاتون کو این آئی آر سی کے ایک فیصلہ کے مطابق مستقل کیا گیا مگر حیرت ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا گیا جبکہ این آئی
آر سی کے مقابلے میں لاہور ہائی کورٹ ہر حال میں ایک بڑا اور اہم مستند ادارہ ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت عوامی مینڈیٹ کی ترجمان ہے اور ہمیشہ عوامی امنگوں کے مطابق اپنے فیصلہ سازی کے عمل کو آگئے بڑھاتی رہی ہے ۔وفاقی حکومت نے گزشتہ برس سعید احمد شیخ کو ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان تعینات کیا جو انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے بہترین آفیسر شمار ہوتے ہیں اور ماضی میں نظامت میں ڈائریکٹر لیگل بھی رہ چکے ہیںانھوں نے بڑی شفقت سے ہمارے موقف کو سنا اور لاہور ہائی کورٹ کے آرڈر کی تشریح بھی کی اور ڈاکٹر غنی الرحمان جیسے نااہل آفیسر کی باز پرس بھی کی کہ ہائی کورٹ کا یہ آرڈر سیدھا ہے کہ یہ کنٹریکٹ ملازمین ہیں اور جب تک ہائی کورٹ اس حوالے سے اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتی ان کو نوکری سے برخاست نہیں کیا جاسکتا اور آئندہ ان ملازمین کے حوالے سے کوئی بھی آرڈر میری اجازت کے بغیر جاری نہ کیا جائے اس فیصلہ کے بعد ہم نے سکھ کا سانس لیا اور اپنے فرائض سرانجام دینے لگے ۔ 3جولائی2024 کو ہم نے ایک درخواست ڈائریکٹر جنرل کی خدمت میں ارسال کی جس میں کم از کم تنخواہ 37000کرنے کی استدعا کی گئی اور درخواست کے ساتھ تنخواہ کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا آرڈ ر بھی منسلک کیا مگر ابھی تک ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا جبکہ گزشتہ 2ماہ سے تنخواہوںکی عدم دستیابی کی وجہ سے ہم 25 کنٹریکٹ ملازمین اور ان کے خاندان بڑھتی مہنگائی اور دیگر ضروریات ذندگی کی عدم دستیابی کی بنا پر فاقہ کشی کا شکار ہیں ۔ آپ یقین نہیں کریں گے ان تمام ملازمین کی سیاسی وابستگی پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے اوراکثریت کا تعلق ایسے حلقوں سے ہے جہاں سے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف 2024کے الیکشن میں منتخب ہوئے ۔اس موقع پر میں اپنے تمام ساتھیوں سمیت وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمارے مسئلہ پر ہمدردانہ غور فرمائیں اور ہمیں ہمارا جائز حق تنخواہ ، بقایا جات کے ساتھ دلوائیں تاکہ ہم بھی اپنے خاندانوں کی کفالت احسن طریقے سے کرسکیں۔