گزشتہ سے پیوستہ : جسٹس مشتاق حسین کی جانب سے ٹرائل سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ میں منتقل کرنے، ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ سے زیر التواء شکایتی کیس کو ہٹا کر ٹرائل کورٹ، جس کی وہ خود سربراہی کر رہے تھے، کے سامنے طے کرنا غیر معمولی تھا۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے کئی پیراگراف میں تعصب ظاہر تھا۔ غیر ضروری معاملات کو زیر بحث لایا گیا جنکا کسی صورت قصوری قتل کیس سے تعلق نہ تھا۔ طے شدہ طریقہ کار سے ہٹ کر قانون پر عمل نہیں کیا گیا۔ ٹرائل کورٹ کے ججوں کے حکم نامہ میں ایک اور متضاد نوٹ مساوات کی خوبیوں کو بیان کر رہا تھا۔ “اسلام مراعات یافتہ طبقات کی تخلیق پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ سب کی قانون کے سامنے برابری پر یقین رکھتا ہے۔ حکمران اور حکومت یکساں یہ ہر قسم کی طبقاتی تفریق کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ خلیفہ، بادشاہ، وزیر اعظم یا صدر، حاکم کو جس بھی نام سے پکارا جائے، قانون کا اتنا ہی تابع ہے جتنا کہ کوئی عام شہری”۔ لیکن ججز نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کی استثنیٰ اور اسے ہر کسی قسم کی آزادی پر کوئی توجہ نہیں دی، کہ جس نے ایک مطلق العنان بادشاہ کے تمام اختیارات اپنے اندر سمیٹ لیے تھے۔ اسی طرح اپیل کورٹ نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے ٹرائل کے دوران تعصب کو نظر انداز کیا جو روز روشن کی طرح واضح تھا ۔
بھٹو کیس میں عدالتوں کی جانب سے جنرل ضیاء الحق کے غیر آئینی اقدام کو ’’پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کی طرح تعبیر کیا گیا‘‘۔ اپیل کے دوران سپریم کورٹ کی جانب سے یہ بتانا بالکل غیر ضروری تھا کہ جنرل ضیاءالحق پاکستانی عوام میں کتنے مقبول ہیں، قتل کی سزاء کے برخلاف بھٹو کی اپیل میں سپریم کورٹ کی جانب سے جنرل ضیاءالحق کی عوامی مقبولیت کی پیمائش کرنا سپریم کورٹ کا مقصد نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ، بشمول سپریم کورٹ کے تین معزز ججوں نے جنہوں نے بھٹو کو بری کر دیا تھا، انہوں نے یہ برملا اظہار کیا تھا کہ بنیادی حقوق 5 جولائی 1977 سے معطل ہیں اور اعتراف کیا کہ بھٹو کو آئین میں درج بنیادی حقوق اور دیگر حاصل حقوق کے تحفظ کے بغیر ہی ٹرائل کورٹ میں مقدمے کی سماعت اور سپریم کورت میں اپیل ، کاروائی کا انعقاد کیا گیا۔ ذمہ داران کی جانب سے مجموعی طور پرمناسب عدالتی عمل اور منصفانہ سماعت کی ہر علامت کو ختم کردیا گیا اور بے گناہوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ عدالتیں، جنہوں نے مقدمے کی سماعت کی اور اپیل کی سماعت کی، آئین کے تحت حقیقی عدالتیں نہ تھیں۔ مملکت پاکستان اور عدالتیں مارشل لاء کی گرفت میں تھیں۔ اور جب جج آئین کی بجائے آمروں سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں تو عدالتیں عوامی نہیں رہتیں۔
ٹرائل کورٹ، جس نے مسٹر بھٹو پر مقدمہ چلایا تھا اور انہیں سزا سنائی تھی، اور اپیل کورٹ، جس نے ان کی اپیل خارج کر دی تھی، اس وقت کام کر رہی تھی جب ملک میں کوئی آئین، قانون نہیں تھا اور پورے جمہوری نظام کی جگہ جنرل ضیاء نے لے لی تھی اور اس ایک آدمی کی مرضی اور خواہش قانون سازی بن چکی تھی۔بدقسمتی سے قصوری قتل کیس میں ٹرائل کورٹ اور اپیل کورٹ میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی تعریف کی گئی۔ اس کے بارے میں کہا گیا کہ ملک بچانے کے لیے (منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والا )قدم صحیح اٹھایا۔ اس طرح کی ناقابل یقین تعریف کے اظہار نے اپیل کورٹ (سپریم کورٹ) کی ساکھ کو مجروح کیا۔ کیا یہ واضح نہیں تھا کہ مجرمانہ فیصلے کا براہ راست فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوگا؟ اور یہ خوف بھی تھا کہ اگر بھٹو کو بری کر دیا گیا تو وہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں مقدمہ چلا سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی ذاتی بقا کا انحصار بھٹو کو مجرم قرار دیے جانے پر تھا۔ جنرل ضیاءالحق کے غاصب اقتدار کے تسلسل کے لیے بھٹو کو سزا سنانے کی ضرورت تھی۔
آمر ضیاءالحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے پاکستانی ایٹمی پروگرام کے خالق، منہ زور فتنہ قادیانیت کو آئینی نکیل ڈالنے والے عالم اسلام کے عظیم لیڈر اور عوام کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ مگر وہ بھول گیا کہ کچھ لوگ مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز کی سربراہی میں قائم عدالتی بینچ کی رائے نے یہ ثابت کردیا کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جسکو ختم کرنے کے لئے آمر ضیاءالحق اور پرویز مشرف نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، اسکے باوجود پیپلز پارٹی آج بھی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے 45 سال بعد آج بھی لوگ زندہ ہے بھٹو زندہ کے فلک شگاف نعرے مارتے دیکھائی دیتے ہیں۔ افسوس آمروں کا نام لیوا کوئی نہیں ہے۔ دہائیوں سے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کبھی نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو کی شکل میں تو کبھی بلاول بھٹو کی شکل میں زندہ ہے۔ بلا شبہ تاریخ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا نام سنہری حروف میں درج ہوگا جنہوں نے بھٹو کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی سازش میں ملوث سازشیوں اور کٹھ پتلیوں کو بے نقاب کیا۔ دعا ہے کہ پاکستان میں آمریت کا سفر ہمیشہ کے لئے ختم ہو اور مستقبل میں کسی اور مقبول ترین سیاسی لیڈرشپ سے محروم نہ ہونا پڑے۔ یاد رہے مقبول عوامی رہنما کو نہ تو عدالتی فیصلے ختم کرسکتے ہیں اور نہ ہی آمروں کی سختیاں۔ آمرانہ سوچ رکھنے والوں کے لئے ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان کی مثالیں بہت واضح ہیں کہ مقبول سیاسی لیڈرشپ اور سیاسی جماعتوں کو کچھ وقت کے لئے دبایا تو جاسکتا ہے لیکن انکا نام کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ کی کروڑہاں رحمتیں نازل ہوں ذوالفقار علی بھٹو کی قبر پر ۔ آمین ثم آمین۔ جمہوریت زندہ باد، پاکستان پائندہ باد