پوری انسانیت کیلئے نجات دہندہ

ڈاکٹر علامہ محمداقبال نے کہا تھا
زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

یعنی قوتِ شبیری کی برکت سے ہی آج تک حق قائم ہے اور باطل کے مقدر میں آخر حسرت و ناکامی ہی ہے۔امام عالی مقام کے حوالے سے علامہ اقبال کی محبت بھی شامل ہے ۔
لیکن دنیا کے ہر زمانے کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے عظیم انسان امام حسین علیہ السلام کو ہی اسلام اور انسانیت کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں ،جن میں آئن سٹائن جیسے سائنسدان سے لیکر عالمی سطح کے دانشوروں تھامس کارلائل،ڈاکٹر کرسٹوفر،جی بی ایڈورڈ،جے اے سیمسن اور جرمن فلاسفر نطشے تک تمام غیر مسلم شخصیات نے بھی امام حسین علیہ السلام کی قربانی کو انسانیت کیلئے مشعل راہ قرار دیا ہے ،
نیلسن منڈیلا کہتے ہیں کہ “میں نے اپنی زندگی کے بیس سال قید میں گزارے پھر ایک رات ایک کمزور لمحے نے مجھے ٹوٹنے پر مجبور کیا اور میں حکومت کی شرط تسلیم کرنے ہی لگا تھا کہ اچانک میرے خیال میں امام حسین علیہ السلام اور تحریک کربلا آئی جس نے مجھے آزادی کیلئے ڈٹ جانے کی طاقت مہیا کردی “ہندو مذہب کے پیشوا شنکر اچاریہ سوامی کہتے ہیں کہ “یہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی تھی جس نے اب تک اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔
بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کہتے ہیں کہ “امام حسین علیہ السلام کی قربانی محض ایک ملک یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ تمام انسانیت کیلئے ہے ۔
برطانوی مصنف چارلس ڈکنز لکھتے ہیں کہ “امام عالی مقام علیہ السلام کی جنگ اگر دنیاوی خواہشات کے لئے ہوتی تو آپ کے ایلخانہ قطعاً آپ کے ہمراہ نہ ہوتے ۔اسلام کیلئے انکی قربانی ہر انسان کو شعور بخش گئی ۔سکھ مذہب کے گرو بابا گورو نانک کہتے ہیں “امام حسین علیہ السلام کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ ہر اس شخص سے ہے جو ضمیر رکھتا ہے “دنیا میں آج بھی حق اور باطل کی جنگ ہے ،حق پر ڈٹ جانے والے امام حسین علیہ السلام کے پیرو کار ہیں اور باطل قوتوں کیلئے یزیدی افکار رکھنے والے ہیں ۔
اچھائی آج بھی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہے ۔مہاتما گاندھی نے عزت وآبرو کیساتھ جینے کا ڈھنگ حضرت امام حسین علیہ السلام سے سیکھنے کا برملا اعتراف کیا ایک اور جگہ وہ کہتے ہیں” میرا عقیدہ ہے کہ اسلام کی ترقی کا انحصار اس کے ماننے والوں کی تلوار کے استعمال پر نہیں ہے، بلکہ عظیم رہبرِ دین حضرت امام حسین (ع) کی عظیم قربانی کا نتیجہ ہے”اسی طرح مسز سروجنی نائیڈو لکھتی ہیں کہ “حضرت امام حسین علیہ السلام کے اعلیٰ کردار کی بدولت ہر مذہب اور فرقے کے انسان مسلمانوں کا احترام کرتے ہیں “
اپنے دور کے بڑے مورخ ایڈورڈ گبن کہتے ہیں کہ “امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی ہر دور کے انسان کا ضمیر جگاتی رہے گی “۔عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے یوں اظہار خیال کیا ہے ’’امام حسین علیہ السلام صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ انہوں نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔
ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسین علیہ السلام آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں‘‘۔مشہورافسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں:’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے‘‘۔
امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ہر باشعور انسان کی یہی رائے ہے ،جوش ملیح آبادی نے بجا طور پر کہا تھا کہ

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

امام حسین علیہ السلام صرف ایک شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظریے کا نام ہے‘ ایک اصول اور ایک نظامِ حیات کا نام ہے۔ حسینیت امن و سلامتی اور حق کی علامت ہے۔ حسینیت دینِ فطرت اور انسانیت کی اساس ہے۔ہر مکتبہ فکر کا باشعور انسان حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت کو سلام پیش کررہا ہے ،حشر تک امام حسین علیہ السلام کی قربانی انسانیت کے لئے مشعل راہ رہے گی ۔

Comments (0)
Add Comment