اسرائیل نے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے رفح پر حملے کو فوری طور پر روکنے کے حکم کو ’اشتعال انگیز، اخلاقی طور پر نفرت انگیز‘ قرار دے دیا اور کہا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کے الزامات ’جھوٹے‘ ہیں۔
فی الحال اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کوئی باضابطہ بیان نہیں دیا ہے لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل عالمی عدالت کے حکم کی خلاف ورزی جاری رکھے گا۔
اسرائیل کے وزیرخزانہ بیزالیل اسموٹرچ نے بیان دیا کہ جنگ بندی کے حکم پر کسی صورت عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا، غزہ میں جنگ روکنے کا مطلب اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے لیے اور پوری آزاد دنیا کے لیے لڑتے رہیں گے، تاریخ فیصلہ کرے گی کہ آج حماس اور داعش کے نازیوں کے ساتھ کون کھڑا تھا۔
جنگی کابینہ کے وزیر بینی گانٹز نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے شہریوں کے وحشیانہ قتل عام، خواتین کے خلاف ہونے والے جنسی تشدد، بچوں کے اغوا اور شہروں پر راکٹ داغنے کے بعد انصاف پر مبنی مہم شروع کی تھی۔
اسرائیلی وزیر ثقافت اور کھیل مکی زوہر نے کہا کہ ’دی ہیگ میں ہائی کورٹ کے ججوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ غزہ آئیں اور حماس کو قائل کریں کہ وہ ہمارے اغوا کاروں کو گھر واپس بھیج دیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ایسا نہیں ہوتا، یہ واضح ہے کہ رفح میں لڑائی روکنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
عالمی عدالت نے کیا حکم سنایا؟
24 مئی کو عالمی عدالت انصاف نے غزہ میں جنگ بندی کی جنوبی افریقہ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسرائیل کو جینوسائیڈ کنونشن کے مطابق رفح میں فوجی آپریشن فوری طور پر روکنے کا حکم دیا تھا۔
رائٹرز کے مطابق نیدرلینڈز کے دارالحکومت ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں دنیا کے 14 مختلف ملکوں کے ججوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کا ایک ایڈہاک جج بھی بطور فریق موجود تھے۔
دوران سماعت عالمی عدالت انصاف کے صدر نواف سلام نے فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ جینوسائیڈ کنونشن کے مندرجات کے مطابق اسرائیل فوری طور پر رفح میں فوجی آپریشن روک دے۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ اسرائیل کو فوری طور پر اپنا فوجی حملہ روکنا چاہیے، اور رفح میں کوئی دوسری ایسی کارروائی نہیں کرنی چاہیے جس سے غزہ میں رہنے والوں کے لیے ایسے حالات ہو جائیں جو ان کی مکمل یا جزوی تباہی کا باعث بنیں۔