رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس صورت حال میں اسکاٹ لینڈ کے پہلے مسلم فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف کو شراکت اقتدار کا معاہدہ ختم ہونے پر استعفیٰ دینا پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی نژاد حمزہ یوسف پر استعفیٰ دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا شدید دباؤ ہے اور ان کے پاس تحریک اعتماد سے بچنے کے لیے مستعفی ہونے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے حمزہ یوسف نے اپنی جماعت اسکاٹش نیشنل پارٹی اور گرین پارٹی کے درمیان اقتدار کی تقسیم کا معاہدہ اچانک ختم کر دیا تھا اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر اقلیتی حکومت چلانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
تاہم اپوزیشن جماعتوں نے حمزہ یوسف کے ساتھ مل کر نئی کابینہ بنانے کے بجائے تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔
ادھر حکمراں جماعت نے حمزہ یوسف کی جگہ عبوری وزیراعظم کے لیے پارٹی کے سابق رہنما جان سوینی سے رابطہ کیا ہے جس لگتا ہے کہ حمزہ یوسف پر مستعفی ہونے کے لیے پارٹی کی جانب سے بھی دباؤ ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی نژاد حمزہ یوسف کی پارٹی کی حکومت پر گرفت گزشتہ برس فنڈنگ اسکینڈل اور پارٹی کے ایک رہنما کے استعفیٰ کے باعث سے کمزور ہوتی گئی تھی۔
قیادت کے بحران اور اسکاٹش حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے حمزہ یوسف کی اسکاٹش نیشنل پارٹی کو درپیش مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا ہے اور یہ جماعت اپنی 17 سالہ عوامی حمایت کھوتی جا رہی ہے۔
اگر حمزہ یوسف مستعفی نہیں ہوتے اور تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرتے ہیں تو شکست کی صورت میں پارلیمنٹ کو اُن کا متبادل ڈھونڈنے کے لیے 28 دن ہوں گے۔
واضح رہے کہ حمزہ یوسف نے مارچ 2023 میں پارٹی فنڈنگ اسکینڈل پر سابق فرسٹ منسٹر نکولا اسٹرجن کے مستعفی ہونے پر یہ عہد سنبھالا تھا۔ فرسٹ منسٹر بننے سے قبل اسکاٹش حکومت میں صحت اور انصاف کے وزیر رہ چکے تھے۔