خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق طلبہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھتے ہوئے کمپنیوں اور شخصیات کا بائیکات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
7 اکتوبر سے غزہ میں جاری جنگ کے بعد یونیورسٹیوں میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، جس کے بعد یہ مظاہرے اب یورپ میں بھی بڑے پیمانے پر پھیلتے جارہے ہیں۔
آسٹریلیا میں سڈنی یونیورسٹی میں طلبہ نے احتجاجی کیمپ لگا لیے، آسٹریلوی وزیراعظم کی اسرائیل اور غزہ سے متعلق پالیسی کے خلاف نعرے بازی کی، طلبہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل سے منسلک کمپنیوں سے علیحدگی اختیار کی جائے۔
پیرس میں درجنوں طلبہ نے سوربون یونیورسٹی کے باہر شدید احتجاج کیا، جرمنی میں بھی پارلیمنٹ کے باہر غزہ کے حق میں لگائے گئے کیمپ پر پولیس نے دھاوا بول دیا۔
یاد رہے کہ اس وقت امریکا کی جن یونیورسٹیوں میں احتجاج کیا جارہا ہے ان میں کولمبیا یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا، آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس، جارج واشنگٹن یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی، کیلیفورنیا اسٹیٹ پولی ٹیکنک یونیورسٹی شامل ہیں۔
اس کےعلاوہ ایمرسن کالج، نیویارک یونیورسٹی، ایموری یونیورسٹی، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی، ییل یونیورسٹی، فیشن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سٹی کالج آف نیویارک، انڈیانا یونیورسٹی بلومنگٹن، مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی ایسٹ لانسنگ کیمپس میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
کولمبیا یونیورسٹی پہلی یونیورسٹی ہے جہاں طلبہ کی بڑی تعداد نےاحتجاج کیا۔ تمام یونیورسٹیوں میں سے اب تک 500 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
امریکی رکنِ کانگریس الہان عمر بھی اپنی بیٹی کے ہمراہ کولمبیا یونیورسٹی میں جاری احتجاج میں شرکت کے لیے پہنچی تھیں، ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون رہنما الیگزینڈرا نے بھی احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا۔
ایموری یونیورسٹی میں احتجاج کے دوران مظاہرین کا کہنا تھا کہ پولیس نے جب گرفتاریاں کیں تو بہت زیادہ طاقت کا استعمال کیا، انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون پروفیسر کو زمین پر گھسیٹ کر حراست میں لیا گیا اور ایک اور مظاہرین پر ’ٹیزر‘ کا بھی استعمال کیا۔