خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی سفارت کار جمعہ کو بیجنگ میں چین کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کریں گے، جہاں وہ تائیوان کی جانب سے ایک نئے رہنما کو منتخب کرنے کے بعد تحمل سے کام لینے کی درخواست کریں گے، اور چینی تجارتی طریقوں پر امریکی تحفظات کا اظہار کریں گے جو انتخابی سال میں صدر جو بائیڈن کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔
انٹونی بلنکن دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، گزشتہ سال جون میں ان کے آخری دورے کے بعد سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تناؤ واضح طور پر کم ہوا ہے۔
اُس وقت، پانچ سالوں میں چین کا دورہ کرنے والے وہ اعلیٰ ترین امریکی اہلکار تھے اور ان کے دورے کے بعد نومبر میں دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ملاقات ہوئی۔
ایک معاون کے مطابق امریکی اور چینی عوام کے درمیان تعلقات کو اجاگر کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ طلبا اور کاروباری رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔
اسی طرح ٹریژری سیکریٹری جینٹ ییلن نے اس ماہ کے شروع میں بیجنگ کا دورہ کرنے سے پہلے گوانگزو کے مینوفیکچرنگ مرکز کا دورہ کیا تھا۔
روس کا معاملہ
انٹونی بلنکن کے دورے کا جائزہ لینے والے ایک سینئر امریکی اہلکار نے کہا کہ امریکا اور چین آج ایک سال پہلے کے مقابلے میں ایک مختلف مقام پر ہیں، جب دوطرفہ تعلقات تاریخی نچلی سطح پر تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ مانتے ہیں، اور ہم نے واضح طور پر یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ تناؤ کو ذمہ داری سے سنبھالنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم امریکی قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔
بائیڈن انتظامیہ کی چین کے ساتھ روابط بڑھانے کی بے تابی فروری 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد سے روس کو تنہا کرنے کی کوششوں کے بالکل برعکس ہے۔
ابتدائی طور پر اس بات پر خوش ہونے کے بعد کہ بیجنگ نے روس کو براہ راست ہتھیار فراہم نہیں کیے ہیں، امریکا نے حالیہ ہفتوں میں چین پر ماسکو کو صنعتی مواد اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔
واشنگٹن نے یورپی رہنماؤں بشمول جرمن چانسلر اولاف شولز کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ چین کی طرف سے روس کی پشت پناہی نہ کرنے پر ثابت قدم رہے، یہ مانتے ہوئے کہ وہ مغرب کے ساتھ مستحکم تعلقات چاہتے ہیں کیونکہ مغرب معاشی مشکلات سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
جمعے کو انٹونی بلنکن نے اٹلی میں گروپ آف سیون میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر چین ایک طرف یورپ اور دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے تو دوسری طرف وہ سرد جنگ کے بعد سے یورپ کو لاحق سب سے بڑے خطرے کو ہوا نہیں دے سکتا۔