تحریر: خالد غورغشتی
حَسن نے غُربت کے ماحول میں آنکھیں کھولیں، اس کے گھر کا کل رقبہ 4 مرلے پر مشتمل تھا۔ البتہ اُس کے خاندان میں کئی لوگ یورپ میں مقیم ہونے کے باعث ان کی اچھی خاصِی معاونت کرتے۔ جس سے ان کا گزر بسر اچھے سے چل رہا تھا۔ حَسن نے جیسے ہی میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کو یہ بشارت سنائی گئی کہ اس کی پھوپھی عاصمہ بیگم کی بیٹی عائزہ کا رشتہ انگلینڈ میں اس کےلیے طے کردیا گیا اور وہ اگلے ماہ اسی مقصد کے لیے پاکستان تشریف لارہی ہیں۔ یہ خوش خبری سُن کر حَسن خوشی سے پُھولے نہیں سماں رہا تھا۔
پڑوسیوں، رشتے داروں اور اس کے دوستوں کا اس سے ملنے کےلیے تانتا بن گیا تھا۔ ہر کوئی اسے مبارک باد دینے لگا۔ اس کےگھر میں دن رات ریل پیل رہنے لگی۔ جوں جوں حَسن کی شادی قریب آنے لگی، اُس کے غرور و تکبر میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اب کوئی اُس سے ملنے آتا تو وہ باتوں ہی باتوں میں اُنھیں حقیر اور کم تر ثابت کرنے کی تگ و دو کیا کرتا تھا۔ آخر کار وہ دن آ ہی گیا جب عائزہ اور اس کی پھوپھی عاصمہ پاکستان تشریف لے آئیں۔ کچھ دنوں بعد بھرپور تیاریوں کے ساتھ ان کی شادی دھوم دھام سے کردی گئی۔ اب حَسن کے گھر والے خوشیوں سے جُھوم رہے تھے۔
شادی کے بعد حَسن اور اس کے گھر والے کسی کو خاطر میں نہ لاتے۔ ہر وقت وہ اپنی خودی کے حصار میں مُبتلا رہ کر ہر ایک سے مُتکبرانہ لہجے میں بات کرتے۔
کچھ عرصے بعد اس کی پھوپھی جان دوبارہ انگلینڈ روانہ ہوگئی۔ اس کی پھوپھی نے نہ صرف حَسن کی شادی کا مکمل خرچا اٹھایا بل کہ جاتے جاتے ہزاروں پونڈ بھی ان کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر گئی تاکہ کچھ عرصہ تک ان کا گزر بسر آسانی سے ہوسکے۔
ان کے جاتے ہی حَسن کے تو جیسے وارے نیارے ہو گئے۔ اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سیر و تفریح اور مہنگے ہوٹلوں پر کھانے اور شغل میلے شروع کر دیے۔ ابھی کچھ ماہ ہی گزرے تھے کہ حَسن کی شاہ خرچیوں کی بہ دولت اس کی جیب جواب دینے لگی۔ اب اس نے بیوی سے پیسے مانگنے شروع کردیے لیکن یہ سلسلہ کب تک چلتا۔ ایک دن اس کی بیوی نے گھر میں سب کچھ بتا دیا۔ یہ سنتے ہی اس کی پھوپھی نے ان کو مزید کچھ بھی دینا بند کر دیا۔ خرچا نہ ملنے کی وجہ سےحسن نے اپنی بیوی کو پہلے گالیاں دیں، پھر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دینے لگا۔ اس نے یہ ساری باتیں اپنی والدہ عاصمہ کو بتائیں تو اُنھوں نے اس رشتے کو توڑنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔
عائزہ کی والدہ نے انگلینڈ سے طلاق کے کاغذات بھیجے اور طلاق نہ دینے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کرنے کو کہا۔ بالآخر حَسن کو حالات کے ہاتھوں یہ نا گزیر قدم اٹھانا ہی پڑا اور اس نے طلاق کے کاغذات پر دستخط کر کے بھیج دیے۔
جوں جوں دن گزرتے گئے حَسن کی طلاق کی خبر آناً فاناً چہار سو پھیلتی گئی۔ اب حَسن سے آہستہ آہستہ دوست، رشتے دار اور محلے دار بھی کنارہ کشی کرنے لگے۔ اسی دوران ایک اور دل خراش واقعہ رونما ہوا۔ حَسن کے چچا نوشاد نے ان کے گھر کی زمین سے اپنی بہنوں کو ساتھ ملا کر اپنا حصہ مانگنا شروع کر دیا۔ جو اس کو مجبوراً دینا پڑا۔ اب اس کا گھر میں سانس لینا عذاب بن چکا تھا۔
ان پہ در پہ سانحات کے بعد حَسن مارے کرب و اضطراب سے منشیات کرنے لگا۔ والد نے جب حَسن کو منشیات کرتے دیکھا تو اس نے اُسے پڑوس میں ہی ایک درزی کے پاس کام پہ لگا دیا۔ اب حَسن نظریں جھکائے صبح سویرے درزیوں کے کام پہ جاتا ہے اور رات گئے لوٹتا۔
یوں اس کی زندگی اب اپنے ہی کرتوتوں کی وجہ پائی پائی کی محتاج بن کر رہ گئی۔ وہ جہاں میں عبرت کا نشان بن کر رہ گیا۔
ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یورپی ممالک کے پیسے نے ہمیں نہ صرف ایک دوسرے سے دور کردیا ہے، بل کہ رشتوں سے مٹھاس بھی ختم کردی۔ ہمیں جیسے ہی یورپی ممالک کی نیشنیلٹی ملتی ہے ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ تو یہاں کے درد ناک حالات ہیں۔ جب کہ یورپی ممالک میں آج ہماری نسلیں تباہی کے اس گڑھے میں جا گِری ہیں۔ جہاں سے ان کو خود ان کی خبر نہیں ہے۔
یاد رکھیں! غرور کا سر نیچا ہوتا ہے اور غلام ہمیشہ غلام ہوتا ہے۔ یورپی ممالک کا ویزہ ملنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم انسانیت کو ہی بھول جائیں اور غرور میں آ کر ہم آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں۔ اللّٰہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ ہمیشہ اس کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ کب کہاں کون سی نعمت چھن جائے کوئی بھروسا نہیں ہے۔