قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی کی جانب سے یہ انتباہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ وہ ایران کی سالانہ فوجی پریڈ سے خطاب کر رہے تھے۔
دنیا گزشتہ ہفتے کے آخر میں اسرائیل پر ایران کے حملے پر ممکنہ جوابی کارروائی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔
دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے جوابی کارروائی سے باز رہنے کے مطالبے کے باوجود اسرائیل نے جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے اور برطانیہ کے وزیر خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ اس نے ’ایکشن‘ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ابراہیم رئیسی نے اسرائیل پر ایران کے براہ راست حملے کو سراہا، ایرانی حملے کو ’ٹرو پرومس‘ کا نام دیا گیا تھا، ایرانی صدر نے اسرائیلی کارروائی کی صورت میں ’طاقتور اور شدید ردعمل‘ کی حالیہ دھمکیوں کو ایک بار پھر دہرایا۔
ابراہیم رئیسی نے زور دے کر کہا کہ دنیا کے لوگوں نے دیکھا کہ حماس کے اسرائیل پر حملے ’آپریشن الاقصیٰ فلڈ‘ کے بعد آپریشن ’ٹرو پرومس‘نے صہیونی حکومت کی جھوٹی برتری کو زمین بوس کردیا۔
ایرانی حملے کو ’محدود‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر ایران اس سے بڑا حملہ کرنا چاہتا تو ’صہیونی حکومت نے ذرا بھی نہیں بچنا تھا‘۔
ایرانی حکام کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کی طرف سے کسی بھی قسم کی جوابی کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
صدر کی اپنی سرکاری ویب سائٹ پر جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق انہوں نے کہا کہ یہ وہ وقت ہوگا جب صہیونی حکومت کے حامیوں کو پتا چل جائے گا کہ ان کی پوشیدہ طاقت کچھ نہیں کر سکے گی۔
پسِ منظر: ایران کا اسرائیل پر حملہ
واضح رہے کہ 13 اپریل کی شب ایران نے اسرائیل پر تقریباً 300 ڈرون اور کروز میزائل فائر کیے تھے، جسے آپریشن ٹرو پرامس کا نام دیا گیا ہے۔
حملے میں اسرائیلی دفاعی تنصیبات اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق یہ حملہ یکم اپریل کو اسرائیل کے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے جواب میں ہے جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید ہوگئے تھے۔