غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق جو بائیڈن کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ یو ایس ٹریڈ ریپریزنٹیٹو (یو ایس ٹی آر) نے حال ہی میں 5 امریکی یونینز کی جانب سے دائر پٹیشن کے جواب میں بحری جہاز سازی، میری ٹائم اور لاجسٹک سیکٹر میں چین کے طریقہ کار کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔
امریکی صدر صدارتی انتخاب میں اہم کردار ادا کرنے والی ریاست پنسلوینیا کے تین روزہ دورے کے دوسرے روز بدھ کو پٹسبرگ میں اسٹیل ورکرز سے خطاب کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
جو بائیڈن اور ان کے انتخابی حریف ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی الیکشن نتائج میں اہم کردار ادا کرنے والے مزدور ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے میدان میں ہیں اور امریکی صنعت کو بحال کرنے کے وعدے کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ چین کی اپنی اسیٹل اور المونیم انڈسٹریز کے لیے پالیسیاں اور سبسڈیز کا مطلب ہے کہ مصنوعی طور پر کم قیمت، زیادہ آلودگی پیدا کرنے والی متبادل چینی اشیا امریکا کی اعلیٰ معیار کی اشیا سے کم لاگت رکھی جا رہی ہیں۔
ایک سینئر امریکی عہدیدار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر اسٹیل کی پروڈکشن کا آدھا چین پیدا کر رہا ہے جب کہ اس کی میٹل برآمدات کی قیمت نمایاں طور پر امریکا کی اسٹیل قیمت سے کم ہے۔
اب جب کہ یو ایس ٹی آر ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے چین پر عائد کردہ ٹیرف کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے تو جو بائیڈن نے موجودہ ٹیرف کو ٹریڈ ایکٹ کے سیکشن 301 کے تحت تین گنا کرنے پر زور دیا ہے۔
اس وقت اس سیکشن کے تحت اسٹیل اور المونیم پر اوسط ٹیرف 7.5 فیصد ہے۔
نام نہاد سیکشن 301 ہی وہ بنیادی شق تھی جسے ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں ٹیرف میں اضافے کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے مزید کہا کہ جو بائیڈن حکام کو چین کی جانب سے ٹیرف خلاف ورزی کو روکنے کے لیے میکسکو کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ہدایات بھی دے رہے ہیں۔
میڈ ان امریکا
دریں اثنا، یو ایس ٹی آر کی جانب سے بحری جہاز سازی اور دیگر شعبوں سے متعلق تحقیقات کا آغاز گزشتہ ماہ یونائیٹڈ اسٹیل ورکرز سمیت دیگر یونینز کی جانب سے پٹیشن دائر کیے جانے کے بعد شروع کی گئی ہیں۔
ان تنظیموں نے صنعتوں میں چین کی برتری و بالادستی کے لیے اس کی ’ناقابل فہم اور امتیازی‘ پالیسیز اور طریقہ کار سے نمنٹنے کے لیے اقدامات پر زور دیا ہے۔
جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ یونائٹڈ اسٹیل ورکرز کی حمایت حاصل کرلی تھی اور جاپان کی کمپنی نپن اسٹیل کی جانب سے پٹسبرگ میں موجود یو ایس اسٹیل کے لیے لگائی گئی بولی کی مخالفت کی تھی۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ جو بائیڈن اس بات کو واضح کرتے رہیں گے کہ یہ یو ایس اسٹیل کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ ملکی ملکیت میں کام کرنے والی امریکی کمپنی ہی رہے۔