پتنگ بازی زمانہء قدیم سے ہی خواص و عوام کا پسندیدہ مشغلہ اور سستی تفریح تھی۔ اس کے آغاز کا سہرا مصری اور چینی لیتے ہیں۔
مصریوں کے مطابق اہراموں سے ملنے والی تصاویر سے ثابت ہوتا ہے کہ پتنگ سازی و بازی کا آغاز فراعین مصر نے کیا تھا۔
چینیوں کا دعویٰ ہے کہ آج سے 400 سال قبل مسیح میں باقاعدہ شاہی خاندان کی حوصلہ افزائی سے چین میں پہلی پتنگ بنائی/ اڑائی گئی اور عوام میں مقبول ہوئی۔
مصر میں چونکہ پتنگ بازی صرف شاہی خاندان تک محدود تھی اس لیے عام آدمی کو یہ کھیل کھیلنے کی اجازت نہ تھی جبکہ چین میں بادشاہوں نے اسے عام کیا، یوں یہ چینیوں کی ایجاد سمجھی جانے لگی۔
برصغیر میں یہ کھیل بدھ بھگشوؤں کے زریعے پہنچا اور سستی تفریح ہونے کے باعث ہندوستان میں بہت تیزی سے مقبول ہوا۔
مقامی راجوں اور مہاراجوں کی بھرپور سرپرستی نے اسے عوامی سطح پر رائج ہونے میں بہت مدد دی۔
آغاز میں پتنگیں ہر موسم میں اڑائی جاتی تھیں لیکن بعد میں موسمی شدتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے
موسم بہار کو ان کے لیے مناسب ترین سمجھا گیا۔
بہار آنے کی خوشی میں بسنت کا تہوار بھی انہی دنوں میں منایا جاتا تھا۔
یوں ایک ہی سیزن میں دونوں تفریحات کا اہتمام انہیں اک دوسرے کے ساتھ مکس یعنی لازم و ملزوم کر گیا۔
یہی وجہ ہے کہ اب بسنت کا نام سنتے ہی زہن میں پتنگ بازی بھی آجاتی ہے۔
پاکستان میں یہ تفریح سب سے زیادہ پنجاب میں منائی جاتی ہے۔
یہاں اس کے رواج یا تاریخ کے معاملے میں مشہور صوفی بزرگ شاہ حسین کا نام آتا ہے۔
ایک ہندو مادھو لعل آپ کو بہت عزیز تھا اور اسے پتنگیں اڑانے کا بہت شوق تھا۔
شاہ حسین اس کا شوق پورا کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔
شاہ حسین کے انتقال کے بعد ان کے مزار پر اسی حوالے سے بسنت کا تہوار منایا جانے لگا۔
بسنت والے دن ڈھول بجانے اور پتنگیں اڑانے کا شغل ہوتا تھا۔
یہ تہوار پہلے پہل شاہ حسین کے مزار تک ہی محدود رہا لیکن ایک اچھی اور سستی تفریح
ہونے کے باعث اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
یہ لاہور سے نکل قصور، پھر پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے شہر قصبے میں پھیل گیا اور
آخرکار اس نے قومی تہوار کی شکل اختیار کر لی۔
یہ تہوار زیادہ تر فروری کی مختلف تواریخ میں باقاعدہ اہتمام کے ساتھ منایا جانے لگا۔
ہر عمر کے خواتین و حضرات بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کے کھیل میں دلچسپی سے حصہ لیتے۔
پھر پتنگ کاٹنے کے مقابلوں کا انعقاد ہونے لگا۔ جونہی کوئی پتنگ کٹتی فضا میں ڈھول کی تھاپ
اور رقص کے ساتھ “بو کاٹا” کا فلک شگاف شور بلند ہوتا۔
خصوصی پکوان پکائے جاتے، اک دوسرے کی دعوتیں کی جاتیں اور ہر طرف خوشیاں اور خوشبوئیں
بکھر کر زندگی کی تلخیوں کی دوا کرتیں۔
چونکہ ہم بحیثیت مجموعی اک ناہموار معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے آہستہ آہستہ یہ کھیل بھی
ہمارے ناہموار منفی رویوں کی زد میں آگیا۔
کھیل کی اصل روح ختم ہوئی اور ضد، انا،حسد و تکبر آ ٹپکے۔ پتنگ کٹ جانا توہین سمجھا جانے لگا
اور تفریح کے بجائے جیت ہی اولین ترجیح بن گئی۔
یوں مہارت کے بجائے بے ایمانی سے جیت کا چلن ہوا۔ مقابل پتنگوں کو کاٹنے کے لیے مانجھے والا دھاگہ عام ہوا۔
مانجھا دراصل کانچ پیس کر اسے مچھلی سلیش کے زریعے ڈور کو سخت اور تلوار کی طرح تیز کرنے کا طریقہ ہے۔
یہ ڈور ہاتھوں اور گردن کو زخمی کر دیتی تھی مگر پیچ لڑاتے وقت مخالف مانجھوں سے کٹ بھی جاتی تھی۔
چنانچہ انا کی قید نے مانجھے والی ڈور کی جگہ دھاتی ڈور متعارف کرائی اور یوں
ایک تفریحی کھیل خونی کھیل میں تبدیل ہو گیا۔
دھاتی ڈور سے راہ گیروں خصوصاً موٹر سائیکل سواروں کے گلے کٹنے لگے اور اسی طرح
یہ بجلی کی تاروں سے ٹکرا کر کرنٹ کا باعث بھی بننے لگی۔
اس سے بجلی کے بریک ڈائون اور ٹرانسفارمر جلنے جیسے نقصانات اور مسائل بھی عام ہونے لگے۔
مجبوراً حکومت کو پتنگ بازی پر پابندی لگانی پڑی۔
یوں یہ حسین تفریح خونی ڈور، اناؤں اور دیگر منفی جزبات کی نذر ہوگئ۔
چونکہ ہمارا سسٹم کرپشن اور اقرباء پروری کے باعث آنکھیں موندھ لیتا ہے اس لیے
پتنگ بازی پر پابندی بھی سو فیصد عمل سے محروم رہی۔
دھاتی ڈور استعمال کرنے والے ظالم پتنگ باز چند گھنٹوں کی تفریح اور ڈور بنانے والے
تھوڑے سے نفع کی خاطر قیمتی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر آئے دن کسی نا کسی بچے یا نوجوان کی گردن پتنگ کی ڈور کے باعث کٹنے کی خبر ملتی رہتی ہے۔
آج بھی اک بہت خوبصورت نوجوان کی اس ڈور کے ہاتھوں موت کی خبر اور تصویر دیکھ کر دل بہت رنجیدہ ہوا۔
دل میں یہی خیال ابھرا کے اس خونی ڈور اور کھیل پر ٹھوس قوانین کے تحت پابندی لگنی چاہیے۔
دھاتی ڈور جو کسی بھی گھر کے چراغ کو گل کر دیتی ہے کو تفریح کہنا غلط ہے۔
اس کے ہاتھوں اب یہ اک قاتل کھیل بن چکا ہے جس میں بہت تکلیف دہ موت چھپی ہے۔
جدید پتنگ بازی میں استعمال ہونے والی دھاتی اور کیمیکل لگی ڈور نما تار سے ہر سال
درجنوں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
گو حکومت کی طرف سے پتنگ بیچنے پر پابندی سمیت اس کو روکنے کے طریقے استعمال ہوتے ہیں
لیکن دوسری طرف پتنگ بنانے والے بھی مختلف جدید طریقے استعمال کر کے پتنگیں اور
ڈوریں بیچنے میں مصروف رہتے ہیں۔
اس سلسلے میں ان کے لیے سب سے زیادہ کارآمد طریقہ سوشل میڈیا کا استعمال ہے۔
پتنگ فروش سوشل میڈیا کی مختلف ایپس استعمال کر کے اپنی تیار کردہ مختلف پتنگوں
اور ڈوروں کی تصویریں وہاں شیئر کرتے
اور گاہکوں سے رابطہ ہو جانے کے بعد کسی خفیہ مقام پر اپنی چیزیں طے شدہ قیمت کے بدلے ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔شاعر دلاور حسین دلاور نے اس حوالے سے کیا خوب کہا
تمھارا شوق سلامت پتنگ بازی گا
سڑک کنارے جوانی لہو میں اٹ گئی ہے
سنو! پتنگ کے کٹنے پہ چیخنے والو
تمھاری ڈور سے گردن کسی کی کٹ گئ ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی قاتل ڈوریں بیچنے والوں اور پھر انہیں استعمال کرنے والوں کو
کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں
تاکہ قاتل ڈور استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی ہو اور ماؤں کے لال ازیت ناک اموات کے شکار نہ ہوں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ بسنت بہار کا حسین ترین کلچر بھی دم نہ توڑے۔
اس امر کے لیے حکومت کی سرپرستی میں شہروں کے پارکوں اور باغات میں جبکہ
قصبوں اور دیہات کے کھلے میدانوں میں ڈور اور پتنگیں چیک کرنے کے بعد پتنگ بازی کی اجازت دی جائے
بلکہ ہلکے پھلکے باوقار مقابوں کا انعقاد کر کے انہیں میلوں ٹھیلوں کی شکل دی جائے
تاکہ اس ڈپریشن زدہ ماحول کا خاتمہ ہو اور اس سستے کھیل کے ساتھ
جڑی صنعت، روزگار اور صدیوں پرانی تفریح کو بھی مرنے سے بچایا جاسکے۔
تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی۔
27/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-6-scaled.webp