اللہ تعالی کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ تخلیق آدم ہوئی تو حوا کی ضرورت محسوس کی گئی اور پھر حوا آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی۔
آدم اور حوا لازم و ملزوم بن گئے۔ پھر فرط جذبات میں شجر ممنوعہ سے مستفید ہوئے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اس کے بعد دونوں کو زمین پر اتارا دیا گیا۔
یہ علیحدہ بات ہے کوئی کہیں اترا اور کوئی کہیں اترا۔ آدم حوا کی تلاش میں اور حوا آدم کی تلاش میں۔
ایک لمبا سفر اور پھر وصال کا دن۔ وصال یار ہوتا ہے تو روح سکھ کا سانس لیتی ہے اور بدن انگڑائیاں لیتا ہے۔ روح اور بت کا جھگڑا شروع ہوتا ہے اور آدم و حوا کی کہانی آگے چلتی ہے۔
قابیل اور ہابیل کی لڑائی اور وہ بھی صنف نازک کے سبب اور یوں ہابیل کا قابیل کے ہاتھوں قتل۔ نسل انسانی کا پہلا قتل۔
کہیں واقعی ابن آدم دنگا فساد تو نہیں پھیلانے جارہا ہے۔ کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ آدم حوا کے جوڑے سے کئی آدم حوا تخلیق ہوتے ہیں۔
مزے کی بات ہے آدم اور حوا اکٹھے تخلیق ہوتے ہیں اور نسلی انسانی کا تسلسل دونوں کے اکٹھے ہونے کا محتاج بنا دیا گیا۔
وائے! انسان بھلن ہار ہے وہ کبھی تو اپنے مالک کو بھول جاتا ہے کبھی اس کے احکام کو بھول جاتا ہے۔ کبھی اپنی اصلیت کو بھول جاتا ہے اور کبھی اپنے ساتھی کو بھول جاتا ہے۔
بلکہ یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ اللہ جانے وہ کیا کیا بھول جاتا ہے اور پھر اس کو بآواز بلند کہنا پڑتا ہے کہ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا تو ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
بڑوں کے کام بھی بڑے ہوتے ہیں اور جو سب سے بڑا ہو وہ اپنی ذات اور صفات میں بے مثل اور بے نظیر ہوتا۔ اقبال جرم پر معاف کردینا اس کی شان ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اس نے امانت پہاڑوں کے سپرد کی تو انہوں نے معذرت کرلی لیکن انسان نے آگے بڑھ کر قبول کی اور یقییننا انسان جلد باز ہے۔ اس کی جلد بازی نے ہی تو اس کو مروایا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے۔
آگے بڑھنے والے ہی آگے بڑھ کر جلدی جلدی منزل پا لیتے ہیں۔ سوچی پیا تے بندہ گیا۔ آدم حوا نے یہ سارا سفر مل کے طے کیا ہے۔ باہمی محبت اور باہمی مشاورت ان کا خاصہ رہا۔
اسی خاصیت نے تو ان کو کبھی بھی زمانے میں رسوا نہ ہونے دیا۔ ہاں جب وہ ایک دوسرے کے پیچھے پڑگئے اور جب ابن آدم نے حوا کی بیٹی کو اپنی جوتی سمجھ لیا۔ اس کو اپنی باندی بنانے کی مذموم کوشش کی اور پھر اس کو زندہ درگور کرنا شروع کردیا تو نظام کائنات تلپٹ ہونا شروع ہو گیا۔
انسان سماجی جانورکے روپ میں کھل کر کھیلنے لگا اور سفلی جذبوں کے تحت وہ جانور بن گیا۔
خالق کائنات زیادہ دیر کائنات کو جانوروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتا اور پھر ہدایت کے لئے اپنے بندے بھیجتا ہے جو انہیں علم و حکمت سکھاتے ہیں
انہیں پاک کرتے ہیں اور پھر ایک دفعہ مرد اور عورت کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر دیا جاتا ہے اور یوں عرش اور فرش پر خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں
ویسے تو دیہات بڑی ہی خوبصورت جگہ ہے۔ فطرت کو یہاں بمعہ پورے بناو سنگھار کے دیکھا جا سکتا ہے۔ شاید خیر اور شر دوبدو چلتے ہیں۔ حوا کی بیٹی اور گاوں۔ پیدا ہوتے ہی مصلحتوں کا شکار، ٹوپی والے برقعے اور اوپر سے نظر نیچی۔ ٹھوکریں ہی ٹھوکریں۔
ڈولی اور جنازہ ایک ہی چیز کے دو نام۔ خاوند مجازی خدا ہے اور پھر خاوند کا واقعی خدا بننے کی ناکام کوشش۔ “پیار دی کہانی لوکو کتھے اکے ٹٹ گئی۔ ہاسیاں توں شروع ہوئی ہنجواں تے مک گئی”۔ تعلیم عورتوں کو گمراہ کرتی ہے اس لئے شہروں کو جانے والے راستے مسدود کردیئے جاتے ہیں۔
اگر کوئی پھر بھی بولے تو طلاق کا لفظ جھٹ میں بیوی کو تنہا بلکہ بالکل ہی تنہا اور غیر محفوظ کردیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں صنف نازک کو گالیاں بھی دی جا سکتی ہیں، دھکے دے کر گھر سے نکالا بھی جا سکتا ہے
اس پر تھپیڑوں اور مکوں کی بارش بھی کی جا سکتی ہے بلکہ رسیوں سے باندھ کر ڈنڈوں سے اس کو مارا پیٹا بھی جا سکتا ہے۔ شہروں میں ایک نیا کھیل تماشہ اور اس کھیل تماشے کا آخری ٹھکانہ بازار حسن۔
حوا کی بیٹی اور اس کے نصیب۔ شاید نصیب بھی ارتقا کے محتاج ٹھہرے۔ سدا چیزیں ایک سی نہیں رہتی ہیں اور پھر علم کے چراغ جلتے ہیں اور چیزیں نمایاں ہو جاتی ہیں۔
بیٹی گھر سے سیدھی سکول جاتی ہے اور سکول کالج اور یونیورسٹی سے ہوتی ہوئی کائنات کی تصویر میں رنگ بھرنے میں اپنا فعال کردار ادا کرتی ہے اور اپنا آپ منوا لیتی ہے۔ ایک ایک ہوتا ہے اور دو گیارہ ہوتے ہیں۔ میاں بیوی مل کر گھر کو جنت بنا دیتے ہیں۔ جنت اس عورت کے پاوں تلے ہے جس کو ماں کہتے ہیں اور ایک وہ عورت بھی ہے جس کو بہن کہتے ہیں جو فرط جذبات میں اپنے سارے حقوق سے اپنے بھائی کے حق میں دستبردار ہوجاتی ہے۔ بیٹی اپنے سارا کچھ اپنے ماں باپ کی عزت کے لئے قربان کردیتی ہے اور چپ چاپ پیا گھر روانہ ہو جاتی ہے۔ یہ ہے حوا کی بیٹی جس کی شائستگی، صبرورضا، ایثاروقربانی اور سرخم تسلیم۔ اے ابن آدم کیا تیری ابھی تک بھی آنکھیں نہیں کھلی ہیں۔ تو کب تک من مانی کرتا رہے گا۔ کب تک بہن کا نکاح قرآن سے کرتا رہے گا۔ کب تک چھوٹی چھوٹی بات پر طلاق طلاق اور طلاق کہہ کر جان چھڑواتا رہے گا، تو کب تک شک کی بنیاد پر اپنی ہی بیٹی کو اپنے ہاتھوں قتل کرتا رہے گا اور تو کب تک ماں اور بیوی کی خانہ جنگی کا کوئی مستقل علاج تلاش نہیں کرے گا۔ سوچ پھر سوچ اور ذرا غور سے سوچ نہیں تو قرآن کی طرف رجوع کر۔ سورہ نساء تیری آنکھیں کھولنے کے لئےکافی ہے اور تیرے دل سے بے ساختہ صدا نکلے گی اللہ کافی اللہ شافی
8 مارچ کو ہر سال ویمن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دن منانے کا بھی کوئی مقصد ہوتا ہے۔ تخلیق صنف نازک کے مقاصد دنیا پر واضح کئے جا سکیں۔ وجود زن نے کس کس طرح کائنات کی تصویر میں رنگ بھرنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ماں بہن بیوی اور بیٹی بن کر اس نے کیسے مرد کا ہر حال میں ساتھ نبھایا ہے۔ اس کو کیوں زندہ درگور کیا جاتا تھا، بازاروں میں رقص کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور مرد اپنی انا اور حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لئے اس کا کس قدر استحصال کرتا رہا۔ ان سارے عوامل کو مدنظر رکھ کر عہد کیا جاتا ہے کہ اس کو اسکا جائز مقام دیا جائیگا۔ علم کے دروازے اس پر پوری طرح کھول دیئے جائیں گے۔ جائیدادوں میں سے اس کو باقاعدہ حصہ دیا جائیگا۔ اس صنف کو برابری کی بنیاد پر حقوق دیئے جائینگے۔ ملازمتوں اور دیگر حکومتی عہدوں میں عورتوں کے کوٹہ کو یقینی بنایا جائیگا۔ ان کی شخصی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ ان کو مارنا پیٹنا تو دور کی بات ہے ان کو گھورنے تک کو ممنوع قرار دیا جائیگا۔ بلاشبہ ان سارے اقدامات سے آپ دنیا کی اتنی بڑی آبادی کو پرسکون اور پرامن ماحول فراہم کر سکتے ہیں اور اگر دنیا ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو مرد اور عورت کے تعلق کو مبنی بر اخلاص ومحبت اور مبنی بر انصاف کے اصول پر قائم کیا جا سکتا ہے۔ پھر ہیر کو زہر دے کر مارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، سسی تھل میں کسی کی تلاش میں ماری ماری نہیں پھرے گی اور نہ ہی سوہنی کو گھڑے کے سہارے دریا پار کرنا پڑے گا۔ آئیں اپنے باپ دادا آدم کی تقلید میں حوا کی بیٹی کو تلاش کرکے دنیا کو خوبصورت بلکہ جنت نظیر بناتے ہیں
تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
13/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-9-1-scaled.jpg